اسرائیلی مظالم جاری ہیں

محمدتوحید راجا


اسرائیل نے رمضان میں بھی مسلمانوں پر مسجد اقصیٰ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ غزہ پر اسرائیلی مظالم جاری ہیں، شہر پر کیے گئے تازہ ترین اسرائیلی حملے میں عورتوں اور بچوں سمیت 10مزید فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ گزشتہ24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فورسز کے حملوں میں 100 کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں رمضان کی پہلی تراویح سے لے کر آج تک مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے سخت ناکہ بندی کر رکھی ہے تاہم اِس کے باوجود متعدد فلسطینی نماز تراویح کے لئے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، قابض سکیورٹی فورسز نے مسجد اقصیٰ کے ایک دروازے پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ اُردن نے مسجد اقصیٰ میں دا خلے پر پابندی کی اسرائیل فلسطین جنگ کو شروع ہوئے قریباً چھ ماہ ہونے کو آ گئے لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اْس نے تو ماہ مضان میں بھی غزہ میں جنگ بندی کی اور نہ ہی فلسطینیوں کو کسی قسم کا کوئی ریلیف دیا ہے۔ غزہ میں رمضان سے پہلے جنگ بندی کے لیے کوششیں کرنے والے ممالک قطر، مصر اور امریکہ جنگ بندی کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کا کہنا ہے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل کے لیے زمینی راستوں کا کھلا ہونا ضروری ہے۔ ساری دنیا جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن اسرائیل اُس کے برعکس جنگ کا دائرہ رفح تک بڑھانے کا اعلان کر رہا ہے جو اِس وقت غزہ کے بے گھر فلسطینیوں کی پناہ گاہ ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور خاتونِ اول نے رمضان المبارک کے مہینے کو ”غور و فکر اور تجدید کا وقت“قرار دیا ہے اور اب تو امریکی صدر جو بائیڈن بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔اْنہوں نے رمضان المبارک کی آمد پر اپنے بیان میں کہا کہ اِس سال یہ مقدس مہینہ بہت تکلیف دہ لمحے میں آیا ہے جب غزہ میں جنگ نے فلسطینی عوام کو خوفناک مصائب سے دوچار کیا ہوا ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کا حصہ ہونے کے طور پر غزہ میں زمینی، ہوائی اور سمندری راستے سے زیادہ انسانی امداد فلسطینیوں تک پہنچانے کی کوشش کرے گی۔ امریکی صدر کامزید کہنا تھا کہ امریکی حکومت کم از کم چھ ہفتوں کے لیے جنگ بندی کرانے کی کوشش جاری رکھے گی۔ امریکی صدر اب تو جنگ بندی کی بات اور مقدس ماہ میں فلسطین کی حالت پر اظہارِ افسوس کر رہے ہیں لیکن آج حالات یہاں تک پہنچانے میں اْن کا بھی بڑا کردار نظر آتا ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں وہ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین مرتبہ جنگ بندی کے سلسلے میں پیش کی جانے والی قرارداوں کو ویٹو کر چکا ہے۔ اپنے حمایتی ممالک کے سر ہی پر اسرائیل اِس حد تک آگے بڑھ گیا ہے کہ اب وہ اْنہیں بھی خاطر میں نہیں لا رہا، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے واضح کہا ہے کہ وہ حماس کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوششوں اور کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اسرائیل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے، عالمی عدالت انصاف میں یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے، وہاں مقدمہ ابھی بھی زیر سماعت ہے لیکن اسرائیل کی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ گزشتہ دنوں بھی خبر آئی تھی کہ شاید اب جنگ بندی کی کوئی صورت نکل آئے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ جنگ کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں لیکن اسرائیل کو کسی بھی قانون اور قاعدے کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھے ہی چلے جا رہا ہے۔ امریکہ اب جنگ بندی کی بات کر رہا ہے تو عملی طور پر قدم بھی اُٹھائے، اپنی ویٹو کی طاقت کا صحیح استعمال کرے۔ ویسے تو یہ خاصا مشکل ہی نظر آتا ہے کیونکہ امریکی صدر ایک انٹرویو میں اسرائیل کو تنبیہہ کرتے ہیں تو اگلے ہی لمحے اپنے بیان کی نفی کرتے ہوئے پھر سے اسرائیل کے حق میں بیان دینا شروع کر دیتے ہیں۔ جو بائیڈن نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ کے دوران ”ریڈ لائن“ کسی صورت عبور نہیں کرنی چاہئے لیکن پھر فوری طور پر اپنے اِس بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی ریڈ لائن نہیں ہے، وہ اسرائیل کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ بائیڈن حکومت ہو یا دنیا کی کوئی اور حکومت اور وہ کچھ بھی سوچتی رہے، دنیا بھر کے عوام اسرائیل کی مخالفت کر ہی رہے ہیں،کیلیفورنیا میں فلسطین کے حامیوں کی بڑی تعداد نے آسکر ایوارڈ کی تقریب سے قبل احتجاج کیا، مظاہرین نے سڑکیں بلاک کر دیں جس کے باعث ایوارڈ کے کچھ شرکاء تقریب میں تاخیر سے پہنچے۔ اِس بار تقریب کی سکیورٹی پہلے ہی سے انتہائی سخت تھی جس کی بنیادی وجہ فلسطینی حامیوں کا احتجاج تھا جو اِسی احاطے میں کیا گیا۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطینی مظاہرین نے ”نسل کشی کے دوران ایوارڈ نہ دیا جائے“ کے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔ اِسی طرح سے امریکہ کے سب سے مشہور اور بڑے نشریاتی ادارے نے اپنے مختلف سٹوڈیوز کی دیواروں پر اسرائیل کے ہاتھوں شہید فلسطینی بچوں کے علامتی نشان بنا ڈالے۔ امریکی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ کی قیمت بچے ادا کر رہے ہیں۔ غزہ میں بچے اسرائیلی حملوں اور بھوک سے مر رہے ہیں جن میں سے شیر خوار بچوں کے لئے دودھ تک میسر نہیں ہے جبکہ پیدا ہونے والے بچوں کے مرنے کا خدشہ ہے کیونکہ قبل از وقت پیدائش کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ قحط کے دہانے پر ہے شمالی غزہ میں ہر چھ میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکارہے۔ یاد رہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں اب تک 12 ہزار 800 بچے شہید ہو چکے ہیں جبکہ مجموعی شہاتوں کی تعداد 31 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، زخمیوں کی تعداد 72 ہزار سے بڑھ چکی ہیں جبکہ ہزاروں افراد لاپتہ ہیں۔ اسرائیل اِسی طرح آگے بڑھتا رہا تو فلسطینی کہیں بھی پناہ نہیں لے سکیں گے، پوری دنیا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے، آج جو اسرائیل جو فلسطین کے ساتھ کر رہا ہے، اگر اِس کا راستہ نہ روکا گیا تو وہ یہی کچھ کل کسی اور کے ساتھ کر سکتا ہے، کوئی بھی ملک اْس کی بربریت سے محفوظ نہیں رہے گا بلکہ کوئی بھی ملک دوسرے سے محفوظ نہیں رہے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں