، باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری
شیطانی دماغوں نے اس بار سوچا کہ پچھلی بار تو ہم فارم 45 اور 47 کے حوالے سے الیکشن جیتے تھے اور حکومت بن گئی تھی اور اس حکومت کو جائز قرار دینے کے لیے انہوں نے ایک نیا طریقہ ڈھونڈا ہے اس سے پہلے بھی میں کہیں لکھ چکا ہوں کہ مسلم لیگ نون فراڈ کرنے کے جو ایک سو ایک طریقے ہوتے ہیں وہ جانتی ہے نارملی 100 فیصد فراڈ تو اپ نے سنا ہوگا لیکن 101 فیصد یہ طریقے جانتی ہیں پچھلی بار جو ان کا مذاق اڑا اور انہوں نے کبھی ایک طرف ایک لگا کے اپنے اپ کو جیتا ہوا دکھائی دیا اور کبھی دوسری طرف زیرو لگا کے۔
ساڑھےگیاہ بجے ہر پولنگ سٹیشن پہ ایک ڈی ایس پی کے نیچے تقریبا ڈھائی تین سو بندے پولیس کے دیے گئے اور وہ جا کے ووٹ ڈالتے رہے اور ،،گچھے کے گچھے،، ووٹ ملے اور فارم 45 کا تو قصہ ہی انہوں نے ختم کر دیا انہوں نے پولنگ ایجنٹوں کو تھپڑ مارے عملے کو ڈرایا دھمکایا اور ان سے سائن کروا لیے
دیکھیے تحریک انصاف کی بات درست ہے کہ جب اپ نے جیتنا ہی ہے تو یہ سارا فراڈ کرنے کی کیا ضرورت ہے اب جس کینڈیڈیٹ کو 8 فروری کو چند ووٹ ملے آج اسی کے پولنگ سٹیشن پہ وہ سینکڑوں ووٹ لے رہے ہیں
حکومت نے گزشتہ تین چار ماہ میں کون سی دودھ اور شہد کی لہریں بہا دی تھی اور کون سے تارے آسمان سے توڑ کے لا کے ووٹروں کو سامنے کر دیے تھے کہ لوگ چار ووٹوں کی بجائے سو ووٹ دے رہے ہیں
عون عباس بپی یہی تو رونا رو رہے ہیں
ہم اسی پولنگ سٹیشن کے اور اسی سیٹ پہ انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں اگر یہ حلقہ کھولا جائے اور اگر تحریک انصاف اس میں اپنے کینڈیڈیٹ کو گنتی کے مطابق ووٹ جو ہے ملے ہیں ثابت ہو جائے تو تو ہم شکست تسلیم کر لیں گے
ارشاد بھٹی نے بڑا زبردست بیان دیا ہے اور ایک نجی چینل پہ انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن کمشنر پھر جیت گیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ جس طرح مولوی مشتاق حسین کے جسد خاکی کو مکھیوں نے الوداعی سلام کیا تھا یہ بھی اسی طرح ہی جائیں گے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب پاکستان کے لوگ کہاں جائیں جہاں ان کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی ہے کہ وہ اپنے نمائندے نہ چن سکیں تو پھر پاکستان کا کیا مستقبل ہوگا اور گزشتہ دنوں کا الیکشن یہ ثابت کرتا ہے کہ اداروں کا غصہ پاکستان تحریک انصاف سے ابھی تک ختم نہیں ہوا پی ٹی ائی ہر بار یہ کہتی ہے کہ ہم اپنے ملک کے اداروں سے نہیں لڑنا چاہتے اور ہر بار اسے دیوار کے ساتھ لگا لیا جاتا ہے کل ایک نوجوان مجھے بتا رہا تھا کہ سر پاکستان میں وہ حالات ہونے والے ہیں کہ جس طرح بگرام ایئرپورٹ سے افغانی امریکہ کے لیے سوار ہو رہے تھے وہی حال پاکستان کا ہوگا حالت یہ ہے کہ پاسپورٹ کے صفحات نہیں مل رہے
میں نے تو یہ کہا تھا کہ میرے بھائی افغانیوں سے بنا کے رکھیں کیونکہ بہت کم عرصے ہی میں افغانستان کے ویزے درکار ہوں گے
اپ سنیں گے کہ پاکستانی افغانستان کا ویزہ لے کے اس ملک میں جائیں گے لوگ اپنے ملک کی ترقی کی خواہش چھوڑ دیں۔ ایک اور نوجوان نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور وہ دبئی کے بارشوں سے تباہی کو پاکستان کے لیے اچھا قرار دے رہا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا اچھائی ہے اس میں اس نے کہا سر وہاں پہ مینٹیننس کا کام اتنا زیادہ ہوگا کہ ہم پاکستانی مزدوروں کے لیے چار پانچ سال اور اچھے لگ جائیں گے اب یہ اس ملک کے شہری کہہ رہے ہیں جو اپنے اپ کو اسلام کا قلعہ کہتا تھا جس نے کوریا کو ترقی کا راستہ بتایا تھا جس نے جاپان اور جرمنی کو قرضہ دیا تھا جس کی ایئر لائن نے پانچ چھ ایئر لائنیں تیار کر کے دی تھی اور جو ایشیا کا ٹائیگر بن رہا تھا اج یہ ٹائیگر کسی ورکشاپ کے چھوٹو کی طرح ہے ہمارے مرحومہ ہمسائی ماسی رکھی کہا کرتی تھی بیجی کو کہنے لگی کہ بہن جی دعا کرو اللہ تعالی رجے اور پرے لوگوں کو اور دے تو بے جی نے کہا کہ اللہ سے یہ کیوں نہ مانگیں کہ اللہ ہمیں ہی دے اج کا نوجوان یہ سوچ رہا ہے میں تقریبا ایک مہینے سے ملک سے باہر ہوں خدا کی قسم کر کے کہتا ہوں میرا پچھلا دورہ اتنا کامیاب دورہ تھا اور میں سر اٹھا کے چل رہا تھا 2019 میں میں جب میزبان ملک کے لوگوں کے درمیان بیٹھتا تھا تو بڑے اعزاز اور فخر کے ساتھ بیٹھتا تھا اور میں کہتا تھا کہ ائیں پاکستان میں اپنی انویسٹمنٹ کریں اج وہ حالات ہیں کہ میں اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلتا اور کمرے میں ہی نماز پڑھتا ہوں پچھلے دنوں میں ایک سیاحتی مقام پر گیا تو میرے ساتھ پڑوسی ملک کا ایک مسلمان بھی تھا وہ میرا ہاتھ تھام کے ایک چائے خانے پہ لے گیا اس نے اپنی فورٹ گاڑی وہاں پہ کھڑی کی اور ہم چائے پینے بیٹھ گئے خدا کی قسم میری انکھوں میں انسو تھے صرف اس لیے کہ وہ چائے بیچنے والا ایک سندھ کا رہائشی تھا 1400 ریال پہ وہ کام کر رہا تھا اور پڑوسی ملک کا یہ نوجوان جس نے میرا ہاتھ تھام کے چائے پلائی تھی یہ کم از کم لاکھوں نہیں تو ہزاروں میں کماتا تھا فورڈ گاڑی تھی دوستو میزبان ملک بدل چکا ہے 2030 کا وی این جن لوگوں نے دیا ہے ان لوگوں نے اس ملک کو ترقی کی جانب تیزی سے اگے بڑھا دیا جدہ شہر کے وہ علاقے جو غربت کا منظر تھے سرے سے ختم کر دیے اور اب یہ شہر خوبصورتی کی علامت بن رہے ہیں جس طائف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پتھر مارے گئے تھے اور ان کے جوتے میں خون اگیا تھا اور انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ پاک رحم فرما فرشتے نے کہا تھا کہ ہم اسے تباہ و برباد کر دیں گے۔لیکن دو جہانوں کے مالک نے انکار کیا آئیں آج دیکھیں طائف کیا بنا ہے یہ پکے کے ڈاکو کیا جانیں ؟
