پاکستانی حج مشن مشاعر کے ایام کے دوران حجاج کرام کی سہولت کو یقینی بنانے کے لیے پوری طرح چوکس رہا ھے۔منگل کو یہاں میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات پر تبصرہ کرتے ہوئے وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے اعلی حکام نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ایک مستند ذریعہ ہونا چاہیے جہاں سے حج کی سہولیات سے متعلق شکایات موصول ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی ان شکایات کو مرتب کرنے کے عمل میں ہیں، حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حجاج کو کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی تصدیق ہماری ٹیم نے موقع پر کی،انہوں نے بتایا کہ زائرین کے 7 ذی الحجہ کی رات منیٰ روانہ ہو نیکے لئے عمارت سے جب نکلتے ہیں اس وقت سے لے کر 12 اور 13 ذی الحجہ کی رات تک ان کی دوبارہ اپنی عمارتوں میں واپسی تک تمام انتظامات اور حجاج کی نقل و حرکت کا کنٹرول سعودی حکومت کی مختلف ایجنسیوں، محکموں اور سروس فراہم کرنے والی کمپنی کے پاس ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان حج مشن کا کردار ان کے ساتھ ہم آہنگی اور حجاج کو درپیش کسی بھی مشکل یا تکلیف کی اطلاع دینے تک محدود ہے۔انہوں نے کہا کہ مشعر (منیٰ، عرفات اور مزدلفہ) میں کسی بھی شکایت کے لیے سعودی حکومت نے اس ہیلپ لائن 1966 کی وسیع پیمانے پر پبلسٹی کی جس پر کسی حاجی کو مناسب خدمات نہ ملنے پر کال کرنا پڑتی ہے۔ان کا موقف تھا کہ پاکستان حج مشن کے معاونین ، طبی اور امدادی عملے کو 20 لاکھ سے زائد عازمین کے ہجوم میں جہاں تک ممکن ہو سکے حجاج کرام کی مدد کے لیے شفٹوں میں مشعروں میں تعینات کیا گیا تھا اور مختلف ویڈیوز اور دیگر شواہد موجود ہیں کہ ان لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق پوری کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ مشائر کا علاقہ اتنا سختی سے منظم ہے کہ کچھ بسیں 20 منٹ کا فاصلہ بھی 4 سے 6 گھنٹے میں طے کرتی ہیں کیونکہ سعودی حکومت کا مجموعی مقصد جانی نقصان کو کم سے کم کرنا ہوتاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب مشعر ختم ہو جائے گا تو حجاج کی طرف سے درج کردہ شکایات کا تجزیہ کیا جائے گا تاکہ طوافا کمپنی اور سعودی حکومت کے ساتھ شکایات کے ازالے کے لیے معاملہ اٹھایا جا سکے۔”ان کا کہنا تھا کہ اگر گذشتہ حجوں پر تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ شاید ہی کوئی حج اس طرح کی شکایت کے بغیر نہ صرف پاکستان بلکہ حج کرنے والے اولین دس بارہ ممالک کا بھی ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مشعر کے دنوں میں پاکستان حج مشن طوافا کمپنی اور سعودی وزارت حج سے رابطے میں رہا تاکہ اس صورت حال میں خاص طور پر جب پارہ تقریبا 50 ڈگری تک ہو جائے ، حجاج کو پیش آنے والی مشکلات اور تکالیف کی نشاندہی کی جا سکے۔انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال مشعر کی اموات 12 تھیں جبکہ اس سال پاکستان کی اب تک رپورٹ ہونے والی مجموعی طور پر 35 اموات میں سے مشعر میں 9 ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو جانی نقصان کو روکنے کے لیے مشعر کی پر ہجوم جگہ پر 25 سے زائد مختلف سعودی ایجنسیاں/محکمے کام کر رہے ہیں۔
