مافیا بحران پیدا کرتے ہیں

اسلام آباد/ٹنڈوالہ یار()مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کے وسائل اڑھائی سو سے تین سو خاندانوں کے کنٹرول میں ہیں ، دو فیصد اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ پورے ملک کے وسائل پر قابض ہیں یہی سیاست کے اندر ہیں اورانہی کے گھر وں سے آرمی ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں لوگ ہیں ۔حکومت ایک کی ہویا حکومت دوسرے کی ہو، حکومت ان کے گھر کی لونڈی ہے ، حکومت انہی کے گھروں کے اندر ہوتی ہے یہی آٹے ، آر ایل این جی ، کھاد،ادویات مافیا ہیں یہ بحران پیدا بھی خود کرتے ہیں اورخود کے پیدا کردہ بحرانوں پر حکومتوں میں زندہ باد ،مردہ باد کے نعرے لگانے والے انہی کی صفوں میں موجود ہیںاور کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم سول نافرمانی کی طرف جائیں ہم اس ملک میں انارکی طرف نہیں جانا چاہتے ، ہماری مارکیٹیں ہماری چھائونیاں ہیں اور پاکستان کے تاجر ہماری فوج ہے ،تاجرپنے اندر اتحاد پیدا کریں تو کس مائی کے لال پولیس افسر ، انتظامی افسر ،ایف بی آر کے اہلکار یا ریاست کے کس ادارے میں اتنی جرت ہے کہ وہ میری کسی مارکیٹ میں آئے اور تاجر کی تذلیل کرے اور وہاں سے باعزت واپس چلا جائے، اگر کوئی کسی بھی تاجرکی تذلیل کرے تو اس کو دکان میں بند کریں، میں دیکھتا ہوں پھر کون تذلیل کریتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ تاجر اپنے اندرجرت اور ہمت پیدا کریں اور اتحاد پیدا کرنے کی اپنی تنظیموں کے دست و بازو بنیں یہاں سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وہ ٹنڈوالہ یار میں منعقدہ آل پاکستان تاجر کنونشن سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر ملک بھر سے مرکزی تنظیم تاجران پاکستا ن کی قیادت موجود تھی ، آل پاکستان تاجر کنوونشن کے موقع پر کاشف چوہدری صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان نے ٹنڈوالہ یار کے منتخب تاجر عہدیداروں سے حلف بھی لیا ۔کاشف چوہدری نے کنوونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم حضرت محمد کے پیشہ تجارت سے وابستہ ہیں اور تاجر اتحادپھولو ں کے گلدستے کی مانند ہے۔انہوںنے تاجروں کو درپیش مسائل، ان کے حل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تجارت کے بارے میں حکمران کہتے ہیں کہ تاجر ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان بنانے کیلئے بلینک چیک دینے والا کو ئی سرکاری افسر نہیں تھاوہ میرا او رآپ کا ہم پیشہ تاجر تھا جنہوںنے پاکستان بنانے کی جدو جہد میںپیسے دئیے اور کہاجہاں اخراجات کرنا چاہئے کر سکتے ہیں ۔آج بھی پاکستان کے تاجروں کا وہی عزم ہے کہ ہم نے پاکستان بنایا تھا ہم ہی بچائیں گے ہم پاکستان کے وارث ہیں ،ریاست پاکستان بنانے کا مقصد تھا کہ یہاں مفت تعلیم دی جائیگی ، ہسپتالوں میں معیاری صحت کی سہولیات میسر ہونگی اور روزگار،رہنے کیلئے چھت اور تحفظ ریاست دے گی ، 77سال کے پاکستان میں جب میں یکھتا ہوں تو نا تعلیم دی جا رہی ہے نہ صحت کی سہولیات میسر ہیں اورنا عوام کو چھت ملا اور تو اور پینے کا صاف پانی بھی یہ نہ دے سکے ہیں لیکن حکمرانوں نے ملک کو غربت، مہنگائی، لاقانونیت ، بد امنی دی یہی نہیں بلکہ تاجر کو ذہنی کوفت اور اذیت دی ہے اوران حکمرانوں نے اپنے محلات میں اضافہ کیا۔ پاکستان کے سارے وسائل تین سو خاندانوں کے کنٹرول میں ہیں ،دو فیصد اشرافیہ پورے ملک کے وسائل پر قابض ہیں ،وہی سیاست کے اندر ہیں انہی کے گھر وں سے آرمی ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں لوگ ہیں ۔حکومت ایک کی ہو حکومت دوسرے کی ہو حکومت ان کے گھر کی لونڈی ہے ، حکومت انہی کے گھروں کے اندر ہوتی ہے۔وسائل سے مالا مال پاکستان جس کی اگر معدنیات کی بات کریں تو معدنیات نکال کر پاکستان کا سارا قرض اتار سکتے ہیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا ۔پاکستان کو چار موسم دستیاب ہیں ،یہاں کی زمینیں سونا اگلتی ہے ، زرعی اجناس کا ذائقہ پوری دنیا میں نہیں ملتا ، بندرگاہیں موجود ہیں ، اتنا خوبصورت ملک ہے اگر صرف سیاحت پر توجہ دی جائے تو پاکستان کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے ، سیاحت پر دنیا کے کئی ممالک کی معیشتیں کھڑی ہیں ِ۔ 60ٰفیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہیں ۔پاکستانی محب وطن ہے، پاکستان کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والے لوگ ہیں ،پاکستانی جرت مند غیرت مند ہیں ۔پاکستان کے ذمہ 86ہزار ارب کا قرضہ کسی پاکستانی نے نہیں لیااورنہ کسی پاکستانی پر خرچ ہوا اگر خر چ ہوا ہوتا تو پینے کے پانی دستیاب ہوتا ، صحت تعلیم کی سہولیات میسر ہوتی ، قرضہ آتا ہے اور کہاں جاتا ہے سب کو معلوم ہے ۔حکمران قرضہ لیتے ہیں اور بھگتناتاجروں اور قوم کو پڑتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود اربوں روپے دیئے جاتے ہیں جو ہمارے اور آپ کے خون پیسنے کا پیسہ ہے۔ دس کارخانے ایسے نکلے جنہیں ایک ہزار کروڑ ماہانہ دیا جا رہا تھا ۔ہم نے احتجاج کیا تو وہی حکمران جو ان کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں تھے پانچ کاروخانوں کے معاہدے ختم کرنے پر مجبور ہوئے اور 18مزید بند ہونے جا رہے ہیں۔ تاجر اسی جرت اور ہمت سے کھڑے رہے تو ان کو بجلی کی قیمت کو کم کرنا پڑے گا اور ہم اس کو کم کرا کے دم لیں گے۔انہوںنے کہا کہ بجلی کے بلوں میں تیرہ قسم کے ٹیکس لیاجا رہا ہے اورحکمرانوں اشرافیہ کی مفت خوری ، بجلی چوری اور لائن لاسسزکیوہم پر ڈالی جاتی ہے ۔ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم سول نافرمانی کی طرف جائیں ہم اس انارکی طرف نہیں جانا چاہتے اس لئے باربار کہہ رہے ہیں کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کروں ، 44قسم کے ٹیکسز لئیے جا رہے ہیں ان کو سنگل ٹیکس سسٹم کیا جائے ۔ان کا بس نہیں چلتا یہ ہوا اور سانس لینے پر بھی ٹیکس لگائیں ، یہ سولر پر بھی ٹیکس لگا رہے تھے یعنی یہ سورج پر بھی ٹیکس لگا رہے تھے جس پر احتجاج کیا تو یہ رک گئے ۔تاجر ملک کی سب سے بڑی قوت ہے ہم سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر کام کرتے ہیں اورتاجروںکے پلیٹ فارم پر اکٹھے اور متحد ہیں ۔ہم تجارت کے نام پر اکٹھے ہیں ہم صرف مسلمانوں کے نمائندے نہیں تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اکٹھے ہیں ہم تجارت کو پروان چڑھانا اور بچانا چاہتے ہیںانہوںنے تاجروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اپنی قوت اور طاقت کو پہچاننا ہوگا آپ حکومت کو بنا بھی سکتے ہیں اور گرا بھی سکتے ہیں ۔آپ کے پیسے سے سیاست دان الیکشن لڑتے ہیں او رسیاسی جماعتیں چلتی ہے تاجر فیصلہ کر لیں تو آپ ملک کا نظام روک سکتے ہیں ۔آپ کے ٹیکس کے پیسے سے سپاہی سے لیکر آرمی چیف تک تو تنخواہوں کی ادائیگیاں ہوتی ہیں ، ایک عدالت کے ریڈر سے لیکر چیف جسٹس تک اسی ٹیکس کے پیسے سے تنخواہیں لے رہا ہے ، ریاست کا نظام آپ کے ٹیکس کے پیسے سے چلتا ہے،جو میرے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہیں لیتے ہیں وہ آپ کے اور میرسے ملازم ہیں ،وہ ہمارے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہ لیتے ہیں اورہم کو ہی چور کہتے ہیں ۔27سو سی سی کی گاڑی پر ایک مجسٹریٹ آلو اور پیاز کے ریٹ چیک کرنے آتا ہے اس کو شرم بھی نہیں آ رہی ہوتی یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔کئی فوڈ اٹھارتی کے نام پر،کئی پرائس کنٹرول کے نام پر اور کئی اور طرح طرح کے ناموں پر یہ چھاپے، گرفتاریاں ،مقدمات ،جرمانے کسی صورت قابل قبول نہیں ہیںہم نہ اس کو برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ایسا ہونے دیں گے ۔انہوںنے کہا کہ میں کہتا ہوں کہ ہماری مارکیٹیں ہماری چھاونیاں ہیں اور پاکستان کے تاجر ہماری فوج ہے ۔آپ اپنے اندر اتحاد پیدا کریں کس مائی کے لال پولیس افسر، انتظامی افسر، ایف بی آر کے اہلکار یا ریاست کے کس ادارے میں اتنی جرت ہے کہ وہ میری کسی مارکیٹ میں آئے اور تاجر کی تذلیل کرے اور وہاں سے باعزت واپس چلا جائے اگر کوئی تذلیل کرے تو اس کو دکان میں بند کریں لیکن اپنے اندر جرت اور ہمت پیدا کریں میں دیکھتا ہوں پھر کون تذلیل کرتا ہے اس کیلئے ضروری ہے اتحاد پیدا کرنے کی اپنی تنظیموں کے دست و بازو بننے کی ، انہوںنے کہا کہ یہ تاجر دوست سکیم لا کر تاجروں کے گلے میں پھندا ڈالنا چاہتے تھے ہم نے پیار سے سمجھایا نہ سمجھے تو ہم نے اتحاد و اتفاق سے ایک دن کاملک گیر شٹر ڈاون کیا آج کہاں ہے وہ تاجر دوست سکیم وہ گئی جو آئی ایم ایف والے لائے تھے یہ سکیم تو وہ ان کے گھر چلی گئی ۔ جمہوری حکومتیں بڑی کمزور اور بزدل ہوتی ہیں یہ شیشے کے محلات سے نہیں نکلتے ، ہم نے جنرل مشرف کی آمریت میں ایک اعلان کیا تھا سترہ دن کی ہڑتال کی تھی اور وہی جو بندوقیں لیکر آتے سروے کرنے آتے تھے وہ بھی واپس چلے گئے ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے معیشت کی بحالی کیلئے روڈ میپ دیا قومی چارٹرڈ آف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے رکھا ہے اگریہ معیشت نہیں سنبھال سکتے تو چھٹی کر جائیں تاجروں کو معیشت کا نظام دیدیں ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جان چھڑا لیں گے، پاکستان کی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیں گے ہمارے اپنے مفادات نہیں ہیںلیکن یہاںوزیر خزانہ بیگ اٹھا کر اپنا حلف اٹھانے آتے ہیں لیکن نوکری آئی ایم ایف کی کرتے ہیں اور جب حکومت ختم ہوتی ہے تو یہ بیگ اٹھا کر واپس چلے جاتے ہیں۔حکومتوں میں یہ چور اور ڈاکووں اکٹھے ہوئے ہیں ان سے جان چھڑانے کیلئے عام ادمی اور تاجر کو اکٹھا ہونا ہوگا ۔آج اہل اور دیانت دار قیادت آجائے تو ایک سال کے اندر پاکستان 1960والا پاکستان بنے گا جو جرمنی کو قرض دے رہا تھا جس نے جاپا ن کو امداد دی جس کی ائیر لائن دنیا کی ائیر لائنوں کی موجد تھی ،جہاں کی دیسی مشینری دیکھنے باہر کی دنیا کے لوگ آتے تھے ، اس کیلئے ضرورت ہے آپ کی اور میری جدوجہد کی جدوجہد کریں گے تو دوبارہ فلاحی خوشحال پاکستان بنے گاجو علامہ اقبال کے خوابوں اور قائداعظم کی جودجہد کا پاکستان ہوگا ۔تاجر پاکستان کے وارث ہیں ۔

اپنا تبصرہ لکھیں