گجر برادری کے سرکردہ رہنما، ایم پی اے چوہدری اقبال گجر کی کمشنر گوجرانوالہ سے اہم ملاقات

گوجرانوالہ (نمائندہ خصوصی)
گوجرانوالہ میں بھینسوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور شہری علاقوں میں گوالوں کی موجودگی شہریوں کے لیے ایک عرصے سے دردِ سر بنی ہوئی تھی۔ مریم نواز شریف کے “صاف ستھرا پنجاب” ویژن کے تحت اس مسئلے کے حل کے لیے ضلعی انتظامیہ نے سخت اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ شہر میں بھینسیں رکھنے پر جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں اور متعدد جانوروں کو تحویل میں لے لیا گیا ہے، جس سے گوالا برادری میں خاصی بے چینی پائی جا رہی ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ اس کاروبار سے ہر قوم اور برادری کے لوگ وابستہ ہیں، لیکن سب سے نمایاں تعداد گجر برادری کی ہے، جن کے روزگار کا انحصار اسی پیشے پر ہے۔ اسی تناظر میں گجر برادری کے سرکردہ رہنما، سدا بہار ایم پی اے چوہدری اقبال گجر نے عبدالرحمن گجر، اور فلاحِ گجراں تنظیم کے نمائندوں – ارشد فاروق، فراز احمد، واجد امتیاز گجر – کے ہمراہ کمشنر گوجرانوالہ سے اہم ملاقات کی، جس میں ڈپٹی کمشنر اور دیگر متعلقہ افسران بھی شریک تھے۔
ملاقات میں ایک تاریخی پیش رفت ہوئی اور باقاعدہ ایم او یو (MoU) پر دستخط کیے گئے، جس کے مطابق ایک ماہ کے اندر اندر تمام گوالوں کو ایک مخصوص گوالا کالونی میں منتقل کر دیا جائے گا۔ حکومتِ پنجاب نہ صرف گوالوں کو زمین کی قیمت ادا کرے گی بلکہ گوالا کالونی کی مکمل ڈیویلپمنٹ بھی حکومتی ذمہ داری ہو گی۔
اس موقع پر پاک کشمیر گجر فورم کے چیئرمین انجینئر افتخار چوہدری نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے چوہدری اقبال گجر، عبدالرحمن گجر، اور فلاحِ گجراں کے تمام ارکان کو دلی مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ:
“یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اگر قیادت نیک نیت ہو، بیوروکریسی مخلص ہو، تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی احسن طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔”
ایم او یو کے مطابق، جب تک گوالا کالونی کا عمل مکمل نہیں ہوتا، شہری حدود میں مزید بھینسیں لانے پر پابندی رہے گی۔ بھینسوں کے فضلے (گوبر) کو اکٹھا کرنے اور مخصوص گاڑیوں کے ذریعے اسے گوالا کالونی منتقل کرنے کا بھی مربوط نظام وضع کیا جا رہا ہے۔
گوجرانوالہ کے سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں نے اس اقدام کو ماحولیاتی بہتری، شہری سہولت اور روزگار کے تحفظ کے درمیان ایک متوازن حل قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی ماڈل دیگر شہروں کے لیے بھی قابلِ تقلید ہو سکتا ہے، بشرطیکہ نیت صاف ہو اور قیادت سنجیدہ ہو۔