ایمان، غیرت اور اوورسیز پاکستانیوں کا وقار


تحریر: انجینیئر افتخار چوہدری

بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ کالم میں خاص طور پر اُن پاکستانیوں کے نام لکھ رہا ہوں جو پردیس کی دھوپ میں پسینے بہا رہے ہیں، جو اپنوں سے دور، بیوی بچوں سے ہٹ کر، دوسروں کے دیس میں اپنا آج بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا کل سنوار رہے ہیں۔
آپ، جی ہاں آپ — جو مشرقِ وسطیٰ کے صحراؤں میں، یورپ کی یخ بستہ فضاؤں میں، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، افریقہ، یا کہیں دور مشرق میں صبح دم نکلتے ہیں اور شام کو تھکے ہارے لوٹتے ہیں — آپ ہی پاکستان کے اصل مجاہد ہیں۔
دنیا نے آپ کو صرف ایک “ورکر”، ایک “مزدور”، یا “اوورسیز پاکستانی” کے نام سے پہچانا، لیکن میں نے آپ کو اپنی قوم کا معمار، اپنے وطن کا سفیر اور اپنے نظریے کا علمبردار پایا۔
میں نے اپنی زندگی کے کئی سال سعودی عرب میں گزارے۔ میں جانتا ہوں کہ وہاں مزدوری کرنے والا پاکستانی کتنی بار “پاکستانی” کہلانے پر شرمندہ سا ہوتا ہے، جب کوئی اُسے حقیر نظر سے دیکھتا ہے، جب کسی عرب کے لہجے میں تحقیر ہوتی ہے یا کسی امیر ہندے کے ہاں صرف خدمتگار سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اے میرے ہم وطنو! میری بات یاد رکھو: یہ پاکستان تمہارے دم سے ہے، تمہارے خون پسینے سے ہے۔
جن لوگوں نے ملک سے باہر جا کر کبھی چھوٹا موٹا ہوٹل کھولا، کبھی مکینک بنے، کبھی ٹیکسی چلائی، کبھی گھروں میں صفائی کی، کبھی فیکٹری میں مشینیں چلائیں — آپ سب وہ چراغ ہیں جنہوں نے بیرونِ ملک پاکستان کا نام روشن رکھا۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا ذریعۂ زر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی محنت ہے۔
یہ آپ ہی تھے جنہوں نے وطن کی بنیاد کو مضبوط رکھا۔ جب پاکستان مشکل میں ہوتا ہے، سب سے پہلے آپ ہی اپنی جیب کھولتے ہیں، زلزلے ہوں یا سیلاب، کرونا ہو یا کوئی اور آفت، آپ کا جذبہ سب سے آگے ہوتا ہے۔
میں نے ان محفلوں میں، ان درباروں میں، ان اجلاسوں میں، جن میں بڑے بڑے عرب شیوخ اور حکمران بیٹھتے تھے، کھڑے ہو کر کہا تھا:
“اگر پاکستان نہ رہا، تو تمہاری ریاستیں بھی نہ رہیں گی۔ تمہارے آرام و آسائش کے محل اس وقت خاک ہوں گے جب تم نے اس قوم کی غیرت کو پہچانا نہیں۔”
میرے دوستو!
آج آپ جہاں کہیں بھی ہوں، کسی چھوٹے کمرے میں، کسی دور دیہات میں، یا کسی عالمی شہر کے گنجان علاقے میں — آپ اپنے گلی کوچوں، اپنی مسجدوں، اپنے پاکستانی دوستوں کے درمیان سر اٹھا کر جئیں۔
آپ کو شرمانے کی نہیں، فخر کرنے کی ضرورت ہے۔
یاد رکھیے، آپ پاکستان کے اصل ہیرو ہیں۔
آپ کی مزدوری صرف روٹی کے لیے نہیں، یہ نظریے کی جنگ ہے۔
آپ جب دیارِ غیر میں ایمان، سچائی، دیانت داری اور محنت سے جیتے ہیں، تو ہر کوئی آپ کو دیکھ کر کہتا ہے: “یہ پاکستانی واقعی محنتی، باوقار اور قابلِ اعتماد ہے۔”
میں جانتا ہوں، آپ میں سے بہت سوں نے گھروں میں اپنے بچوں کے لیے قربانی دی ہے۔ ماں باپ کے جنازے نہ دیکھ سکے، بچوں کی سالگرہ نہ منا سکے، عیدیں اکیلے گزاریں، مگر ملک اور اپنے خاندان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
آپ کے ان آنسوؤں کو، ان قربانیوں کو، کوئی حکمران نہیں سمجھتا، لیکن تاریخ یاد رکھے گی کہ جب پاکستان مشکل میں تھا، تو اوورسیز پاکستانی اس کے ساتھ کھڑے تھے۔
میں نے ان محفلوں میں، جہاں بڑے دانشور اور عرب وزراء بیٹھے تھے، برملا کہا کہ ہندوستان کبھی تمہارا دوست نہیں ہو سکتا۔ وہ تمہارے ساتھ صرف مفاد کی بنیاد پر ہے۔
تمہارا اصل بھائی، اصل محافظ، اصل دیوارِ فولاد پاکستان ہے۔ اگر یہ دیوار گری تو تم بھی گر جاؤ گے۔ لیکن اگر اس دیوار کو مضبوط کرنا ہے تو تمہیں ان پاکستانی مزدوروں کو عزت دینا ہوگی، جنہوں نے تمہاری زمینیں آباد کیں، تمہارے شہر بسائے۔
میرے محترم پاکستانیوں!
تم اپنی شناخت کو فخر سے پہنو۔ چاہے تم ریاض، جدہ، دبئی، دوحہ، لندن، نیویارک یا سڈنی میں ہو — تمہارے ہاتھوں کی لکیریں پاکستان کی بنیادوں میں شامل ہیں۔
یہ قلم خاص طور پر تمہارے لیے لکھا ہے۔
تمہاری قربانی، تمہاری غیرت، اور تمہاری محنت کو سلام ہے۔
میرا دل کہتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا۔ جب بیرونِ ملک پاکستانیوں کو صرف ترسیلات زر کی مشین نہیں، بلکہ ایک باوقار قومی کردار کے طور پر پہچانا جائے گا۔
میں دعا گو ہوں کہ وہ دن جلد آئے جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں “اوورسیز پاکستانیوں کا مخصوص حلقہ” ہو، ان کے مسائل سنے جائیں، اور انہیں سیاست و ریاست میں باقاعدہ نمائندگی دی جائے۔
اور آخر میں، میں تمہیں یہی کہنا چاہتا ہوں:
“تم مزدور نہیں، تم وطن کے معمار ہو۔ تم تنہا نہیں، پوری قوم تم پر ناز کرتی ہے۔”
سر اٹھا کے جیو، فخر سے جیو، اور جب بھی موقع ملے، اپنے دیس کے لیے آواز اٹھاؤ — کیونکہ تم ہو پاکستان کے اصل وارث!
پاکستان زندہ باد
اوورسیز پاکستانی پائندہ باد
اسلام سر بلند باد