عدالت نے حکومت پر تنقید کرنے والے دو درجن سے زائد یوٹیوب چینلز پر پابندی لگانے کا حکم معطل کر دیا ہے جن میں صحافیوں اور سابق وزیراعظم عمران خان کا چینل بھی شامل تھا۔
یوٹیوب نے اس ہفتے 27 یوٹیوبرز کو بتایا کہ وہ ان کے چینلز کو بلاک کر سکتا ہے اور وہ جوڈیشل مجسٹریٹ عدالت کے حکم کی تعمیل کریں۔
اسلام آباد کی جوڈیشل مجسٹریٹ عدالت نے کہا تھا کہ قومی سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی چینلز پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ ’ریاستی اداروں اور ریاست پاکستان کے عہدیداروں کے خلاف اشتعال انگیز اور ہتک آمیز مواد تیار کر رہے ہیں۔‘
27 میں سے دو یوٹیوبرز کی وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ حکم کو معطل کرنے کا فیصلہ ایک ایڈیشنل سیشن جج نے کیا ہے
مزاری نے کہا کہ ’ہماری درخواست یہ ہے کہ اس حکم کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ یہ دفاع کو سننے کا موقع فراہم کیے بغیر یک طرفہ فیصلہ تھا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجسٹریٹ کا اس معاملے پر کوئی دائرہ اختیار نہیں تھا۔ سیشن کورٹ میں اگلی سماعت 21 جولائی کو ہو گی۔
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی پابندی سے پاکستان میں آزادی اظہار کو مزید مجروح کیا جائے گا جہاں حکام پر اختلاف کرنے والے اخبارات اور ٹیلی ویژن، اور سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
ایف آئی اے نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان یوٹیوب چینلز پر ریاستی اداروں کے خلاف منفی مواد نشر کیا جا رہا ہے
واضح رہے کہ 8 جولائی کو جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے یوٹیوب چینلز پر پابندی لگانے کے بعد دو صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ شواہد اطمینان بخش ہیں اور قانون کے مطابق کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایف آئی اے نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان یوٹیوب چینلز پر ریاستی اداروں کے خلاف منفی، گمراہ کن اور اشتعال انگیز مواد نشر کیا جا رہا ہے جس سے ریاستی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تحریری حکم نامے کے مطابق ایف آئی اے نے دو جون کو اس معاملے پر باقاعدہ انکوائری کا آغاز کیا تھا۔ عدالت نے 27 یوٹیوب چینلز کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی بندش کا حکم دیا ہے۔ مزید برآں، یوٹیوب کی کمپنی گوگل کے آفیسر انچارج کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ان چینلز کی رسائی فوری طور پر بند کرے۔