وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر ہونے والے تعیناتیوں کا نوٹس

وزیراعظم عمران خان نے وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر ہونے والے تعیناتیوں کا نوٹس لیتے ہوئے ایسے تمام افسران کے تقرر کی تفصیلات طلب کرلیں. دفتر وزیراعظم سے جاری ہونے والے مراسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 23 اپریل 2020 اور سپریم کورٹ کے 18 اگست 2016 کے فیصلوں کا ذکر کیا گیا‘یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسابقتی کمیشن پاکستان (سی سی پی) کی چیئرپرسن ودیا خلیل اور اس کے اراکین ڈاکٹر محمد سلیم اور ڈاکٹر شہزاد انصار کے تقرر کو کابینہ نے منظور نہ ہونے کی بنا پر غیر آئینی قرار دیا تھا.

عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ یہ تعیناتیاں غور کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش نہیں کی گئیں بلکہ تفویض کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس وقت کے وزیر خزانہ کی تجویز کو منظور کیا تھا جس میں کابینہ کو بائی پاس کیا گیا تھا. وزیراعظم عمران خان کے سیکرٹری اعظم خان کی جانب سے جاری کردہ مراسلے میں مصطفیٰ میکس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا‘سپریم کورٹ نے 18 اگست 2016 کو یہ فیصلہ سنایا تھا کہ وفاقی حکومت سے مراد وزیراعظم اور اس کی کابینہ ہے اور صرف وزیراعظم یا کوئی وزیر یا سیکرٹری اکیلے وفاقی کابینہ کی نمائندگی نہیں کرسکتا سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جب کسی قانون میں وفاقی حکومت کا فیصلہ درکار ہوگا تو اس سے مراد کابینہ بشمول وزیراعظم کا فیصلہ ہونا چاہیئے.
چنانچہ مذکورہ بالا اعلیٰ عدالتی احکامات کے تحت وزیراعظم عمران خان نے تمام وفاقی سیکرٹریوں، ایڈیشنل سیکرٹریوں، تمام محکموں کے انچارج کو 18 اگست 2016 کے بعد ہونے والی ایسی تمام تعیناتیوں کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی جس کے لیے کابینہ یا وفاقی حکومت کی منظوری درکار تھی اور اس منظوری کے بغیر تقرر کیا گیا. اس فہرست میں وہ تمام تعیناتیاں بھی شامل کرنے کی ہدایت کی گئی جو وفاقی کابینہ کے اختیارات غیر قانونی اور دائرہ اختیار کے بغیر کسی وفاقی وزیر یا سیکریٹری کو تفویض کر کے کی گئیں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ یہ تمام کارروائی ایک ہفتے یعنی 30 اپریل تک مکمل کی جائے اور تیار ہونے والی فہرستوں کو 5 مئی کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائے.