جاوید الرحمن ترابی
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ سال دسمبر سے چین کے شہر ووہان سے شروع ہونیوالے کرونا وائرس نے پھیلتے پھیلتے پوری دنیا کی معیشتوں کو جکڑا ہے جبکہ اس وائرس سے اب تک دنیا بھر میں ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہوئی ہیں اور متاثرین کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں بھی اس وقت کرونا وائرس کا پھیلاؤ سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے اور اب تک 47 ہزار سے زائد لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ اموات بھی ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں اگرچہ دوسرے ممالک بالخصوص مغربی دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں کرونا متاثرین اور اس سے جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد انتہائی کم ہے تاہم اس وباء کا پھیلاؤ روکنے اور اسکے سدباب کیلئے ہمیں بہرصورت وہ تمام احتیاطی اقدامات اٹھانا ہیں جو عالمی ادارہ صحت کے متعین کردہ پیرامیٹرز کے مطابق دوسرے ممالک میں اختیار کئے گئے۔ یہ حقیقت تو اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ کرونا وائرس کی آزمائش کسی ایک دن‘ ماہ یا سال کی نہیں بلکہ یہ دیگر موذی امراض کی طرح ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے چنانچہ ہمیں اسی تناظر میں اس وبا کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنے کا چلن اختیار کرنا ہے۔ اس صورتحال میں مضبوط معیشتوں والے امیر اور ترقی یافتہ ممالک بھی کاروبار زندگی مستقل طور پر بند کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور جب تک کرونا وائرس کے علاج کی موثر ویکسین تیار نہیں ہو جاتی‘ اس وقت تک بہرصورت احتیاطی اقدامات کے ساتھ معمولات زندگی کو جاری رکھنا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے تو شروع دن سے ہی ملک کی اقتصادی اور مالی صورتحال اور محدود قومی وسائل کی بنیاد پر کرفیو جیسے لاک ڈاؤن کی پالیسی اختیار کرنے سے گریز کیا تھا کیونکہ انہیں اس حقیقت کا مکمل ادراک تھا کہ کاروبار زندگی بند ہوا تو لوگ کرونا سے بچتے بچتے غربت اور فاقہ کشی سے مارے جائینگے۔ ملک میں مجبوراً جزوی لاک ڈاؤن ضرور کرنا پڑا مگر اسکے نتیجہ میں بھی لاکھوں ملازم پیشہ اور دیہاڑی دار افراد ملیں‘ فیکٹریاں‘ مارکیٹیں بند ہونے سے بے روزگار ہوگئے اور عملاً فاقہ کشی کا شکار ہونے لگے۔ حکومت نے وزیراعظم کی ہدایت پر کرونا متاثرہ خاندانوں کی بحالی اور بے روزگاروں کی امداد کیلئے مختلف ریلیف پیکیجز کا اجراء کیا جبکہ عساکر پاکستان نے بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں حکومت کے ساتھ یکجہت ہو کر متاثرین کی امداد اور بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسکے باجود ہماری معیشت اتنی مستحکم نہیں تھی کہ تادیر امدادی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکیں۔ وزیراعظم نے بالخصوص مضبوط معیشتوں والے ترقی یافتہ ممالک کی قیادتوں سے کرونا سے متاثرہ غریب ممالک کی امداد اور عالمی مالیاتی اداروں سے انکے قرضوں میں ریلیف فراہم کرنے کی اپیل کی جس کا عالمی برادری کی جانب سے مثبت ردعمل بھی سامنے آیا تاہم کاروباری سرگرمیاں بحال کئے بغیر ہماری معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا انتہائی دشوار تھا جبکہ جزوی لاک ڈاؤن سے حکومتی ٹھوس پالیسی کے معاملہ میں بھی گومگو کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی جس کا چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا اور وفاق اور صوبوں میں یکساں پالیسی لاگو کرنے پر زور دیا۔ اسی بنیاد پر وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی اور بعض شعبوں میں کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں کو غربت اور فاقہ کشی سے بچایا جاسکے۔ اب سپریم کورٹ نے صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کرونا کے حوالے سے وفاق کے فیصلوں پر عملدرآمد کریں جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ملک بھر میں تمام کاروباری سرگرمیاں بحال کردی گئی ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور ٹرینیں بھی چل پڑی ہیں اور پنجاب میں بزرگان دین کے مزارات بھی کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں متعینہ احتیاطی اقدامات کی پابندی کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے بصورت دیگر ہمارے ملک میں بھی کرونا زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل سکتا ہے۔ حکومت اور عسکری قیادتوں نے باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ احتیاطی اقدامات پر عملدرآمد کی ٹھوس پالیسی بہرحال طے کرلی ہے جو سختی سے لاگو کی جائیگی تو ہمیں کرونا کے ساتھ رہ کر کاروباری زندگی جاری رکھنے کا ڈھنگ بھی آجائیگا۔ زندہ قوموں نے آزمائش کے ایسے مراحل میں ہی بھرپور طریقے سے جینے کا چلن اختیار کرنا ہوتا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ہم اجتماعی بصیرت کے ساتھ اس چیلنج میں سرخرو ہونگے اور کرونا وائرس کے ساتھ ہمارے معمولات زندگی بھی چلتے رہیں گے