یوم تحفظِ ختم نبوت عقیدت و احترام اور ہمارے پیارے نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر کٹ مرنے کے جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے

ملک بھر میں آج 7 ستمبر کو یوم تحفظِ ختم نبوت عقیدت و احترام اور ہمارے پیارے نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر کٹ مرنے کے جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں آج ملک کی مذہبی‘ سیاسی اور سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام تقریبات‘ سیمینارز اور کانفرنسوں کا کرونا کے حوالے سے احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے انعقاد کیا جارہا ہے جن میں 1953ء اور 1974ء   کی تحریک تحفظ ختم نبوت کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرتے ہوئے حضرت نبی آخرالزمانؐ کی شان میں فتنہ قادیانیت کی گستاخیوں کا تذکرہ کیا جائیگا اور اس تناظر میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے والے قومی اسمبلی کے 7 ستمبر 1974ء کے اس متفقہ فیصلے پر روشنی ڈالی جائیگی جس کے تحت فتنہ  قادیانیت کا مستقل طور پر تدارک کرکے قادیانیوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں متفقہ طور پر منظور کی گئی آئینی ترمیم کے تحت غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جائیگا جن کے دور حکومت میں متذکرہ آئینی ترمیم کے تحت قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا۔میسی کا700ملین یورو کی  خطیر رقم ادائیگی  بارسلونا کو  چھوڑنے میں بڑی رکائوٹ بنی

متفقہ آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دلانا بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو کا بہت بڑا کارنامہ ہے جبکہ قومی اسمبلی میں مرزا ناصر کے اس بیان کی بنیاد پر قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے سے متعلق آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی فضا ہموار ہوئی جس میں مرزا ناصر نے قادیانیوں کے علاوہ کسی کو بھی مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ اس تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت قومی اسمبلی کے تمام مسلم ارکان نے اپنے لئے توشۂ آخرت سمجھتے ہوئے اس وقت کے وفاقی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کی پیش کردہ آئینی ترمیم کی متفقہ طور پر منظوری دیدی جس کے بعد سینٹ نے بھی اس آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری دی۔ اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ بعض تحریکیں بعض تاریخوں کو تاریخ ساز بنا دیتی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 1953ء کی تحریک ختم نبوت نے 7 ستمبر 1974ء کے دن کو تاریخ ساز بنایا اور آج ملک میں فتنہ قادیانیت کو فروغ دینے‘ اس کا پراپیگنڈہ کرنے یا اسکے پملفٹ اور کتب تقسیم کرنے کی قانوناً ممانعت ہے۔ آج کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی انکی کسی عبادت گاہ کو مسجد کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ اس بنیاد پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں 7 ستمبر 1974ء کی تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے بے پناہ اہمیت حاصل ہے۔ حالیہ دنوں پارلیمنٹ میں متفقہ طور قانون منظور کیا گیا جس کے تحت نبی کریمؐ کانام جہاں بھی لکھا اور ادا کیا جائیگا اسکے ساتھ خاتم النبین لکھنااور کہنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہر مسلمان کی دلی تمنا تھی۔ یہ اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد 1953ء سے ہی فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کیلئے شمع رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں نے جید علماء کرام مولانا عبدالستار خان نیازی‘ مولانا مودودی‘ علامہ ابوالحسنات اور مولانا خلیل احمد قادری کی زیر قیادت تحفظ ختم نبوت کی عظیم تحریک کا آغاز کر دیا تھا۔ اس تحریک میں دس ہزار مسلمانوں نے تحفظ ختم نبوت میں اپنی جانیں نچھاور کیں اور شہادت کا بلند مقام پایا جبکہ مولانا مودودی‘ مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا خلیل احمد قادری کو سزائے موت سنائی گئی۔ تحریک تحفظ ختم نبوت کے جذبے نے ہی تینوں جید علماء کرام کی سزائے موت کے خاتمہ کی راہ ہموار کی

شمعٔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں کا ایسا ہی جوش و جذبہ 1974ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں موجزن رہا

اپنا تبصرہ لکھیں