جبری کرونا ویکسن اور پاکستانی عوام

۔۔۔۔۔۔۔ تحریر۔۔۔۔۔۔ شیریں سید

کرونا وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جس سے ہر انسان کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے معاشی و معاشرتی بحران بے حد پریشانی کا باعث ہے۔ کاروبار متاثر ، تجارت متاثر، تعلیمی نظام متاثر، مذہبی اجتماعات و تقریبات متاثر، غرضیکہ سارے کا سارا نظام زندگی متاثر بلکہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ آخر اس کرونا وبا کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔؟ کیا یہ واقعی طاعون جیسی ایک وبا ہے یا لیبارٹریوں میں تیار کردہ ایک جرثومہ، اس قسم کے سوالات مجھ سمیت کٸی لوگوں کے دماغ گردش کر رہے ہیں۔ کیا یہ واقعی ایک بیماری ہے یا باٸیو لوجیکل وار۔۔۔۔؟ اسکا جواب شاید ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے ایک طرف تو اس جرثومے نے ساری دنیا میں ایک آفت برپا کر رکھی ہے۔ تو دوسری طرف کرونا ویکسن کے مضر اثرات کے بارے میں سن سن کر ہر انسان نفسياتی الجھن کا بری طرح شکار ہے۔اس ضمن میں ٹی وی چینلوں پر محترمہ یاسمین راشد صوبائی وزیر صحت پنجاب کا بیان کافی غور طلب اور تشویش ناک ہے۔ جس میں انہوں نے نہ صرف کرونا ویکسن کے مضر اثرات کا برملا اعتراف کیا بلکہ یہ بھی اعلانیہ کہا کہ میں اور میرے سکریٹریز ہرگز کرونا ویکسن نہیں لگواٸیں گے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ویکسين کے اس قدر مضر اثرات متوقع ہیں کہ وفاقی وزیر صحت خود اسے لگوانے پر آمادہ نہیں ہیں تو پھر عوام بالخصوص سرکاری ملازمين کو یہ ویکسين کیوں زبردستی لگاٸی جا رہی ہے۔۔۔۔؟ آخر کون سے قانون کے تحت پاکستانی عوام جبری ویکسین لگوانے کی پابند ہے۔۔۔۔۔؟ جب کوٸی دوا یا ویکسین بناٸی جاتی ہے تو طویل مدت تک اسے جانوروں پر آزمایا جاتا ہے۔ تو پاکستانی عوام تجرباتی ویکسين کے لیے جانوروں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔۔۔۔؟ سرکاری ملازمين کو یہ کہا گیا کہ ویکسين نہ لگوانے کی صورت میں انکی تنخواہیں روک لی جاٸیں گی۔ جب کہ سننے میں آ رہا ہے آگے چل کر جو عام شہری بھی ویکسين نہیں لگواٸیں گے ان کی موبائل سمیں، سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور یہاں تک کہ شناختی کارڈ بھی بلاک کر دیے جاٸیں گے۔ حالانکہ ایسا کوٸی قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت کوٸی سرکاری ملازم یا عام شہری جبری ویکسين لگوانے کا پابند ہو۔ کوٸی بھی ویکسين بھلے وہ آسٹرازنیکا ہو یا موڈرنا، فاٸزر ہو یا جانس اینڈ جانس یا کوٸی اور تمام ویکسينوں کے عالمی سطح پر خطرناک مضر اثرات سامنے آ رہے ہیں یہاں تک کہ کٸی لوگ جان تک سے جا چکے ہیں۔ اسی وجہ سے کٸی ممالک پابندی لگا چکے ہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی عوام کو اس تجربے کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ بھی صاف اور واضح طور پر بتایا جا رہا ہے کہ ویکسين لگوانے کے بعد بھی اس بات کی کوٸی گارنٹی نہیں کہ ویکسين لگوانے والا اس واٸرس کا شکار نہیں ہو گا۔ جبکہ کرونا کی بیماری میں 99.9 فیصد مریض بنا کسی مخصوص دوا کے صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب اب یہ خبر سننے میں آٸی ہے ویکسين لگوانے والا ہر شہری اس کے مضر اثرات کا خود زمہ دار ہو گا اور اقرار نامے پر دستخط کرے گا کہ وہ ویکسين کے مضر اثرات سے واقف ہے اور اپنی مرضی سے ویکسين لگوا رہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک جبری ویکسين لگوانے والا شخص اس قسم کے اقرار نامے پر دستخط کرنے کا پابند کیونکر ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔؟ جبکہ اسے انتہاٸی بے بسی کے عالم میں یہ ویکسین نہ چاہتے ہوٸے بھی لگوانی پڑ رہی ہے۔ آخر اس سب صورتحال کا زمہ دار کون ہے۔۔۔۔؟ حکومت کو اس اس مسلے پر فوری توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ پاکستانی عوام کی زندگی اور موت کا سوال ہے