کامسیٹس کے زیر اہتمام عالمی ویب نار

اسلام آباد(                  )آج کی دنیا وبائی مرض کوویڈ 19کی گرفت میں ہے، اس مرض سے دنیا کیسے شفاء یاب ہوگی اور شفایابی کے بعد دنیا کیسی ہوگی؟اس کے لیے عالمی سطح پرمشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار نئے سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے دنیا بھر سے مدعو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے متعلقہ ماہرین نے اپنی اپنی تجاویزمیں دیے۔ ان ماہرین کا تعلق دنیا کے 20 سے زائدممالک سے تھا۔ جنوبی جنوب خطے کے پس منظر میں کامسیٹس کے زیر اہتمام  منعقدہ ایک ویب نار میں اِن ماہرین نے اس بات پراتفاق کیا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کی راہ میں حائل مختلف چیلنجز سے نبردآزماہونے کے لیے آج ادارہ جاتی تعاون کی عالمی سطح پر پہلے سے زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ یہ ورچوئل تقریب اقوام متحدہ کی جانب سے جنوبی جنوب خطے  کے لیے مختص کیے گئے دن کی یاد میں منعقد ہوئی، جس کا موضوع ”جنوبی جنوب تعاون کے تحت،وبائی امراض کے بعد کی بحالی کے لیے آگے بڑھنا“ تھا۔ یادرہے خطہ جنوبی جنوب کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی برائے پائیدار ترقی کے کمیشن (کامسیٹس)کا مقصد بین الاقوامی اور ترقیاتی تنظیموں کے نمائندوں کو ایک فعال پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ادارہ جاتی تجربات اورصلاحیتوں کو  جنوبی جنوب تعاون کے کمیشن کے تحت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پروگرامز کو لاگو کرنے اوران کو تقسیم کرنے کے لیے جامع طریقہ کار اپنا سکیں۔اس ویب نار کا مقصد جنوبی جنوب تعاون کے فروغ  میں حائل چیلنجز اور اسٹریٹجک نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ وبائی مرض کے بعد کے زمانے میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے تعاون کے طریقہ کار کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے سفارشات اکٹھی کرنا تھا۔ ویب نار تقریب میں بنگلہ دیش، بینن، کینیڈا، چین، کولمبیا، مصر، فرانس، گیمبیا، ایران، اٹلی، اردن، قازقستان، کینیا، مراکش، نائیجیریا، فلسطین، پاکستان، سری لنکا، سوئٹزرلینڈ، تنزانیہ، تھائی لینڈ، ترکی، یوگنڈا، امریکہ، وینزویلا، یمن اور زمبابوے سے تقریباً 80 ماہرین نے شرکت کی۔
اس موقع پروفاقی سیکرٹری، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اورایگزیکٹو ڈائریکٹر کامسیٹس ڈاکٹر اختر نذیر نے اپنے استقبالیہ کلمات میں اس تقریب کی اہمیت اور عصرحاضر کی ضروریات سے مطابقت رکھنے کے حوالے سے روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر نذیر نے کہا کہ دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے متعدد چیلنجز پر قابو پانے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں عالمی سطح پر گہرے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ اس تناظر میں، تعلیم، تحقیق، جدت، استعداد، پالیسی سازی اور انفراسٹرکچر کی ترقی میں جنوبی جنوب اور سہ رخی تعاون کا حوالہ پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
جن قابل ذکر مقررین نے ویب نار سے خطاب کیا اُن میں ڈاکٹر عادل عبداللطیف، ڈائریکٹر اقوام متحدہ کے دفتر برائے جنوبی جنوبی تعاون (یونیسکو)، نیویارک سے، ڈاکٹر کارلوس ایم کورییا، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ساؤتھ سینٹر، جنیوا سے، پروفیسر آئی لیکون، اسسٹنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر، بین الاقوامی سائنس تنظیموں کا اتحاد (اے این ایس او) بیجنگ سے، ڈاکٹر پیٹر میک گرا، انٹر اکیڈمی پارٹنرشپ (آئی اے پی) ٹریسٹی سے، پروفیسر ماہوٹون این ہوانکونو، صدر نیٹ ورک آف افریقی سائنس اکیڈمیز (این اے ایس اے سی) نیروبی سے، ڈاکٹر ایم شریف، مشیر سائنس و ٹیکنالوجی، اسلامی عالمی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (آئیسکو) رباط سے اور عدنان ایچ علیانی، ڈائریکٹر برائے حکمت عملی اور پروگرام مینجمنٹ ڈویڑن، اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحر الکاہل، بینکاک سے شامل ہوئے۔
 مقررین نے اپنی آپس کی بات چیت اور سوال وجواب کے بعد اس ایونٹ کے موضوع کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ اس مرحلے میں متعلقہ اداروں اور ممالک کو درپیش چیلنجز اور کامیابیوں کو کوویڈ 19 کی شروعات کے بعدکی صورتحال،کوویڈ 19 سے نکلنے سے متعلق پالیسیوں، ہدایات،آپس میں ہم آہنگی کے لیے مربوط روابط اور تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔اس کے علاوہ کوویڈ سے جامع بحالی کے لیے جنوبی جنوب خطے اور ترقی پذیر دنیا میں سائنس،ٹیکنالوجی، انجینرنگ اور ریاضی(STEM) کی تعلیم کی اہمیت، جنوبی جنوب تعاون سے استفادہ کرنے میں سائنس اکیڈمیوں کے کردار، کوویڈ 19 کے بعد کی دنیا کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے موثر پروگرامز کی ترقی اور نفاذکے لیے مختلف طریقہ کار بھی زیربحث آئے۔
بیس سے زائد ممالک کے اِن علمی دانشوروں نے اس تقریب کے نتیجے میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول، کوویڈ 19 کے دوران اور بعد ازاں بہترین تعمیروترقی کے لیے جنوبی جنوب خطے میں تعاون اور تعاون کو بڑھانے کے طریقہ کار کی تلاش، اِن طریقہ کار کو جامع انداز میں وضع کرنے کے لیے مشترکہ تفہیم اور مضبوط عزم پیداکرنے کی ضرورت پربھی زور دیا۔