بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان جرائت مند، عاشق رسول اور مسلمانوں کے سچے ہمدرد صحافی تھے

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان جرائت مند، عاشق رسول اور مسلمانوں کے سچے ہمدرد صحافی تھے، انہوں نے صحافت کو مشن کے طور پر اختیار کیا اور بر صغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کی، وہ بہترین ادیب تھے اور شاعر بھی انہوں نے عشق رسول میں ڈوب پر نعت کہی ان خیالات کا اظہار یہاں یاران صحافت و ادب کے زیر اہتمام ایک محفل میں کیا گیا یہ مجلس مولانا ظفر علی خان کی یاد میں منعقد کی گئی، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے صدر کالم نگار محمد نواز رضا، مہمان خصوصی تھے، ڈاکٹر ساجد خاکوانی نے مجلس کی صدارت کی اور محترمہ بیگم تنویر لطیف(تمغہ امتیاز) مہمان امتیاز کی حیثیت سے شرکت کی،یاران صحافت و ادب کے سربراہ ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے ابتدائی کلمات ادا کیے اور مولانا ظفر علی خان کو خراج عقیدت پیش کیا ان کی صحافتی، ادبی خدمات کو سراہا، اور کہا کہ مولانا ظفر علی خان کی پوری جدو جہد شعلہ بیانی، عملی طور پر قلمی جہاد میں گزری ہے، ڈاکٹر ساجد خاکوانی نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں انہوں نے صحافتی اور ادب کے میدان میں بر صغیر کے مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کی بانئی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی ان کی خدمات اور کردار کی تعریف کی تھی، زمیندار نے جنگ طرابلس خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں میں تشویش کا باعث رہی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جنگ طرابلس کی خبروں نے روزنامہ زمیندار کو بہت مقبول کیا، محترمہ بیگم تنویر لطیف نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان بے باک جرائت مند صحافی تھے ان کے صحافیانہ کردار کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا انہوں نے صحافت اور ادب کے میدان میں مسلمانوں کی اپنے قلم اور تحریروں اور شاعری سے بہترین رہنمائی کی، انہوں نے کہا کہ ان کے والدین جموں سے ہجرت کرکے وزیر آباد آئے تھے اور ان کے والد کا معمول تھا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر مولانا کی مرقد پر حاضری دیا کرتے تھے، مولانا ظفر علی خان سچے عاشق رسولؐ تھے، انہوں نے کہا کہ ہمیں کشمیر کی زادی کے لیے کام کرنا چاہیے اور سید علی گیلانی جیسے جرائت مندکرداروں کو یاد رکھنا چاہیے، محترمہ شمیم فرخندہ نے مولانا ظفر علی خان کو ایک اپنی نظم کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا، پی ایف یو جے (دستور) کے صدر کالم نگار اخبار نویس محمد نواز رضا نے کہا کہ انہیں آغا شورش کاشمیری کے ساتھ کام کرنے شرف ملا ہے، اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، وہ جرائت مند صحافی تھے اور مولانا ظفر علی خان نے اپنی تحریروں، قلم اور شاعری کے ذریعے مسلمانوں کی رہنمائی کی اور انہیں جرائت مندانہ زندگی گزارنے کا ڈھب سکھایا،آزادی کی جنگ اور تحریک پاکستان، سڑکوں جلسہ گاہوں کے ساتھ اخبارات کے صفحات پر بھی لڑی گئی تھی۔ زمیندار کے صفحہ اوّل پر مولانا ظفر علی خان کی نظمیں شائع ہوکر تحریک پاکستان کے متوالوں میں ایک نئی روح پھونک دیتی تھیں اُردو صحافت کا یہ وہ دَور ہے جب شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے، حرف کی حرمت سے با خبر اہل قلم اخبارات سے وابستہ ہوتے تھے زبان کو فروغ ملتا تھا قائد اعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے ظفر علی خان جیسے ہونہار لوگ مل جائیں تو مسلمانوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی،انگریز سامراج کے قانون کے مطابق ریاست کے خلاف خبروں کی اشاعت پر زر ضمانت ضبط کرنے کے احکامات جاری ہوتے تھے۔ زمیندار میں اس کا اعلان ہوتا تو بہت سے عقیدت مند نقد رقم لے کر زمیندار کے دفتر پہنچ جاتے کہ رقم جمع کروادیں اخبار کی اشاعت میں تعطل نہیں ہونا چاہئے زمیندار کے شہید نمبر، اسلام نمبر اور کشمیر نمبر کی ضبطی پر انہوں نے نظم کہی
دل ضبط جگر ضبط زباں ضبط فغاں ضبط
سب ساز عیاں ضبط ہے سب سوز نہاں ضبط
روکیں گے وہ کیوں کر مرے مضموں کی روانی
تنکے سے بھی ہوتا ہے کہیں سیل رواں ضبط
وہ ضبط کریں میری دوات اور قلم تو
ہوجائیں گے خود ان کے تفنگ اور سناں ضبط
،پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کے جائنٹ سیکرٹری میاں منیر احمد نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان جیسے کردار آج ملکی صحافت میں نظر نہیں آتے، ہمیں اپنے ان اسلاف سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے اور ان کی پیروی کرنی چاہیے اور ان کے علمی ادبی سرمایہ کو اپنانا چاہیے، ان کا اخبار قوم کی رہنمائی کرتا تھا،آج کے صحافیوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں کو اپنے قلم اور زبان کو رواں رکھنے، اظہار کے نئے نئے انداز جاننے کے لیے مولانا ظفر علی خان کی شاعری، نثر، مضامین پڑھنے چاہئیں