دھیرے دھیرے آگے بڑھتی ہوئی زندگی کا نام ہی پاکستان کیوں ہے۔ وہاں وقت کیوں پتھرایا ہوا ہے۔ زمین و آسماں کی گردشیں کیوں رکی ہوئی ہیں۔ موسموں کے دریا کس لیے جمے ہوئے ہیں۔ بصارتوں میں کس نے سلائیاں پھیر دی ہیں۔ سماعتوں میں کس نے سیسہ بھر دیا ہے۔ آوازوں میں کیوں سناٹے گونج رہے ہیں۔ تعبیروں سے محروم خوابوں کے ہجوم کس لیے آنکھوں سے چپک کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کیوں مردہ منظروں کی ایک فلم بن چکا ہے۔ اڑتی ہوئی راکھ کے بگولے۔ فاسفورس بموں میں جلی ہوئی مسجدیں۔ دور تک پھیلی ہوئی قبریں۔ خودکش بمباروں کے طشت میں رکھے ہوئے سر۔ چٹانوں پر کھدے ہوئے موت کے نقشِ پا۔ نمازیوں کے چہروں کے خوفزدہ کتبے۔ امید کے پرندوں کی کرلاہٹیں۔ تپتی ہوئی ریت میں گم ہوتے ہوئے آسمان کے آنسو۔ جمہوریت کے ایوانوں میں ہوتا ہوا پتلی تماشا۔کیوں یہی پاکستان کا ماضی اور حال بن کر رہ گیا ہے