سرحدوں کی مضبوطی مضبوط کڑیل جوانوں کے مضبوط حوصلوں کی مرہون منت ہوتی ہے

اللہ کا انعام ہے پاکستان اور یہ طے شدہ بات ہے کہ اللہ کے انعام کو زوال نہیں آسکتا۔ وطن عزیز پاکستان جب سے بنا بلکہ بننے سے بھی پہلے جب اس کو بنانے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی جارہی تھی اور اس کے حصول کے لیے قربانیوں کی داستان شروع ہو رہی تھی اس وقت سے لے کر آج تک یہ پوری دنیائے کفر کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ عالم کفر پہلے یہ چاہتا تھا کہ برصغیر کے مسلمان پاکستان کو آزاد اسلامی ریاست کے طورپر حاصل نہ کر سکیں لیکن خدائی امر پورا ہوکر رہا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان آزاد اسلامی فلاحی خود مختار مملکت بن کر ابھرا۔اس کے بعد عالم کفر پھر سر جوڑ کر بیٹھا کہ اس کو باقی نہ رہنے دیا جائے چنانچہ ہر طرح سے اور ہر طرف سے سازشوں کے جال بچھائے گئے تاکہ پاکستان کا  وجود ختم ہوجائے۔ ان شیطانی تدبیروں پر خدائی تقدیر غالب رہی اور پاکستان کا وجود نعمت الہٰی کا مظہر بن کر آج تک زندہ و پائندہ ہے۔

جب سازشوں سے کچھ نہ ہو سکا تو دشمن نے طاقت کو آخری حربے کے طورپر استعمال کیا لیکن وہ یہ بھول گیا کہ پاکستان محض حادثاتی طور پر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے صلے میں اللہ نے عطا فرمایا ہے جیسے شہید؛ حیاتِ جاودانی کا تمغہ اپنے سینے پر سجاتاہے اسی طرح اس کے لہو میں بھی خدا نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ جس کی بنیادوں میں شامل ہو جائے اسے بھی زوال کے زنگ سے آلودہ نہیں ہونے دیتا۔

کسی بھی ملک میں امن،معیشت اور خوشحالی اس وقت آ سکتی ہے جب اس ملک کی سرحدیں مضبوط ہوں۔ سرحدوں کی مضبوطی مضبوط کڑیل جوانوں کے مضبوط حوصلوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ صد شکر ہے کہ پاکستان کی ترقی، خوشحالی، مضبوط معیشت اور پرامن ہونے میں افواج پاکستان کا شروع سے مثالی اور قابل تحسین کردار چلا آ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اسلام سے وابستگی ہے جس نے ہماری بہادر افواج کے جانبازوں اور سرفروشوں کو اسلامی ریاست پر قربان ہو جانے جذبہ اور باہم متحد رہنے کا سبق دیا ہے، یہی وہ مبارک جذبہ تھا جس کی بنیاد پر ہم کل تک ناقابل شکست قوم رہے اور اسی جذبے کی بدولت ہی ہم آئندہ ناقابل شکست قوم باقی رہ سکتے ہیں۔

اسلام سے مضبوط وابستگی کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان کی پالیسی اور سوچ ہے جس کی بنیاد پر ان کے حوصلے بلند ہی رہتے ہیں۔ تاریخ پاکستان کا ہر طالب علم بانی پاکستان کے اس فرمان کو کبھی نہیں بھول سکتا جو انہوں نے ملک کے دفاع کے حوالے سے کیا تھا، 22 جنوری 1948ء دلاور جہاز کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا:”پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی الگ الگ جگہ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے، اس کے لئے آپ کا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ایمان، تنظیم اور ایثار۔ آپ اپنی تعداد کے کم ہونے پر نہ جائیے، اس کمی کو آپ کی ہمت و استقلال اور بے لوث فرض شناسی سے پورا کرنا پڑے گا کیونکہ اصل چیز زندگی نہیں ہے بلکہ ہمت، صبر و تحمل اور عزم مصمم ہیں جو زندگی کو زندگی بنا دیتے ہیں۔“

پاکستان کو معرض وجود میں آئے ابھی 18، 19 سال ہوئے تھے،پڑوسی ملک ہندوستان نے اس پر حملے کی منصوبہ بندی کی اور صبح کا ناشتہ لاہور میں کرنے کی خواہش کا اظہار کیا  اور ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے،”کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ“ کے مصداق اسلحے اور طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح پاکستان کی مقدس حدود میں داخل ہوئے تو ”مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“ کے مصداق پاکستان کی افواج نے ان کے منصوبے کو خاک میں ملایا اور انہیں خاک چاٹنے پر مجبور کیا۔