تاریخ ساز اخبار نویس سعود ساحر کی دوسری برسی نیشنل پریس کلب میں عقیدت و احترام سے منائی گئی

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ(دستور) کے سابق صدر ممتاز تاریخ ساز اخبار نویس سعود ساحر کی دوسری برسی نیشنل پریس کلب میں عقیدت و احترام سے منائی گئی، جس میں پی ایف یو جے(دستور) کے صدر نواز رضا، سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ممتاز قانون دان حسنین کاظمی ایڈوکیٹ، سابق آئی جی پولیس موٹر وے جمیل ہاشمی، اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹریز کے عہدیداروں اور آر آئی یو جے کے ممبرز، کشمیر جرنلسٹ فورم کے صدر خاور نواز راجا، حکیم محمد احمد اور سعود ساحر مرحوم کے صاحب زادے احمد سعود، سن گلو کے چیف ایگزیکٹو مدثر فیاض چوہدری، اعجاز احمد، محمد بلال، اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹریز کے عہدیداروں سردار احسان عباسی، عمران شبیر عباسی، ابو بکر، ارسلان احمد اور دیگر شریک ہوئے نواز رضا نے کہا کہجب تک اس ملک میں صحافت زندہ رہے گی سعود ساحر کا نام زندہ رھے گا، اور ان سے سے وابستہ حضرات کے دل میں خوشبو کی طرح مہکتے رہیں گے آج صحافت کے پر شکوہ افق پہ جو جلیل القدر شخصیات انتہائی تمکن سے براجمان ہیں، اک الگ اسلوب اور طرز نگارش کے ابتکار کنندہ ہیں وہ صحافت کی آبیاری کرنے والے مرد حر تھے پیرانہ سالی کے باوجود، اپنے وقت پہ دفتر آتے اور سب کام آج کے نوجوان سے زیادہ خوش اسلوبی اور پھرتی سے سرانجام دیے ان کے اندر خون نہیں، بجلیاں ڈوڑتی تھیں، تاجر راہ نماء بلال احمد نے تقریب کی صدارت کی، جمیل ہاشمی نے کہا کہ سعود ساحر اپنی زات میں انجمن تھے اور ملکی سیاست کا انہیں مکمل ادراک اور صحافتی امور پر انہیں مکمل دسترس حاصل تھی، سیاسی امور پر کتنی گہری نگاہ تھی اور وہ آنے والے حالات کی پیش بینی کی صلاحیت سے کس حد تک مالا مال تھے،میدانِ صحافت میں اُن کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا، بلال احمد نے کہا کہ سعود ساحر نے جنرل ایوب خان کے دور سے لے کر آپنی زندگی کے آخری ایام تک ملکی صحافت پر ایک باخبر اخبار نویس کے طور پر شہرت پائی، ان کی تحریر میں بہت ذیادہ وزن ہوتا تھا، خبر کو اور کالم کو قاری کے لیے قابل ِ قبول بنانا ایک مشکل کام ہوتا ہے جسے انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا اور پابندیوں کے درمیان میں سے بھی اپنی بات کرنے اور لکھنے کا اپنا راستہ نکالا، وہ اپنا مافی الضمیر پوری بیباکی اور حق گوئی سے ادا کرنے کے ماہر تھے، حسنین کاظمی ایڈوکیٹ نے کہا کہ اخبار نویسوں کو متحد ہو کر اپنے حقوق کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اپنے حقوق کی پہچان کرنی چاہیے، انہوں نے کہا کہ صحافت صرف سچ لکھنے کا نام ہے سنسنی خیزی پھیلانا صحافت نہیں ہے حکیم محمد احمد نے کہا کہ ایک زمانے میں ہر بڑا لکھنے والا یہاں چھپ رہا تھا مگر سعود ساحر نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا وہ نامور صحافی تھے ہوئے اور انہوں نے اپنے اپنے شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے،ایک کہکشاں تھی جو صحافت کے آسمان پر نظر آتی تھی، خاور نواز راجا نے کہا کہ سعود ساحر ایک جرائت مند صحافی تھے ہمیں ان کی تقلید کرنی چاہیے، مرزا عبد القدوس نے کہا کہ ہمیں ان کے ساتھ اپنی رفاقت پر بہت فخر ہے اور ہم اس وقت کو اپنے لیے باعث ِ افتخار سمجھتے ہیں، تاجر راہ نماء عمران شبیر عباسی نے کہا کہ سعود ساحر نے میدانِ صحافت میں بہت ہی نمایاں خدمات انجام دی ہیں نہوں نے علمی صحافت کے میدان میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں وہ پیرانہ سالی کے باوجود جوانوں کی سی متحرک زندگی گزار رہے تھے ان کی تحریریں روشنی دکھاتیں اور چراغِ راہ کا کام کرتی ہیں