کشمیر مارچ ہو گا آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کریں گے‘ سراج الحق


امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے نیشنل ایکشن پلان برائے کشمیر، بھارت پر عالمی پابندیاں لگانے، او آئی سی کی طرف سے بھارت کے ہر قسم کے سماجی، معاشی بائیکاٹ کرنے اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر کشمیر کے لئے عالمی مہم چلانے کے مطالبات کر دیئے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے اور اس کے لئے پہلے سے تیاری کی جائے۔ بھارتی فوج نے کشمیر کو انسانوں کے خون سے رنگین کر دیا ہے، عالمی منشور سے انحراف کر رہا ہے، اقوام عالم کو نوٹس لینا چاہئے، ہمارے حکمران کشمیریوں کو مرتا، بلکتا اور جلتا دیکھ رہے ہیں، لگتا ہے احساس مر چکا ہے۔ 22 دسمبر کو لاکھوں لوگ حکمرانوں کے ضمیر جھنجوڑنے اسلام آباد کی سڑکوں پر نکلیں گے اور اس مقام پر کشمیر مارچ ہو گا جس سے حکمران جاگ جائیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہم آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام اب ہمارے منتظر ہیں، جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو رکھنے والے اداروں سے کہنا چاہتا ہوں غوری اور شاہین جیسے جدید ترین میزائل رکھنے والے خاموش کیوں ہیں، اپنے ماٹو کی لاج رکھیں ہماری نہیں سنتے تو اللہ کے پیغام کو سنیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ امیر جماعت اسلامی آزادکشمیر ڈاکٹر خالد محمود، نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم، ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی محمد اصغر، آزادکشمیر اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما عبدالرشید ترابی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے 22 دسمبر کے کشمیر مارچ کی تفصیلات کا اعلان کیا اور کہا کہ ہر ذریعہ استعمال کرتے ہوئے ملک بھر سے لوگ اسلام آباد میں پہنچیں گے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قوم میں کسی قومی مسئلے پر مکمل اتفاق رائے ہے تو وہ کشمیر کی آزادی ہے اس پر قوم مکمل طور پر یکسو ہے اور اس حوالے سے کسی بھی جگہ کوئی اختلاف نہیں ہے ساری قوم کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ تصور کرتی ہے کشمیر پاکستان کی زندگی و موت کا مسئلہ ہے کشمیر کی آزادی پر پاکستان کا حال اور مستقبل کا انحصار ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کشمیر کیلئے قوم نکلنے کے لئے تیار ہے۔ مودی کے اقدام کے بعد مسئلہ کشمیر عالمی مسئلہ بن گیا ہے بھارتی افواج کے اقدام کے خلاف اکثر ممالک میں احتجاج ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، دانشوروں، تھنک ٹینکس اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھارتی اقدام کی مذمت کی ہے۔ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان کا جغرافیہ نامکمل ہے بدقسمتی سے پانچ اگست کو بھارتی حکومت نے کشمیر کے خلاف اقدام کیا۔ ہمارے حکمران خاموش تماشائی بنے رہے۔ بھارت نے اپنے طور پر کشمیر کو دنیا کے نقشے سے ہٹا کر اپنا علاقہ قرار دیدیا اور اب نقشے پر اس نام کی کوئی ریاست نہیں ہے۔ پہلی بار یورپی ممالک اور اہم اسلامی ممالک میں کشمیر کے لئے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا مظاہرہ ڈھاکہ میں ہوا۔ ترکی، ملائیشیا اور ایران کی قیادت سے اظہار تشکر کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ ایک لاکھ چار ہزار سے زائد مربع کلومیٹر پر مشتمل بھارتی قبضے میں ہے۔ ہمیں جنگ بندی پر مصنوعی کارروائیوں میں الجھائے رکھا اور کشمیر پر جنگ لڑے بغیر قبضہ کر لیا۔ بھارت نے ناصرف کشمیر ہڑپ کر لیا ہے بلکہ چبائے بغیر اسے ہضم کر رہا ہے اور ہم صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ 27 اگست کو وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ ریاست و قوم کو بہت توقعات وابستہ تھیں مگر واپس آ کر کسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔ 27 اگست کے بعد سے حکومت خاموش ہے بلکہ عمران خان نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ جو ایل او سی کی طرف جائے گا وہ غدار ہو گا جو اس طرف جائے گا وہ کشمیر اور پاکستان کا مخالف اور دشمن ہو گا۔ ان کے اس فتوے نے قوم میں انتہائی مایوسی پیدا کی ہے۔ قوم غربت، بھوک، افلاس برداشت کر سکتی ہے مگر کشمیر کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ مہنگائی اور معیشت کمزور ہے اس کے باوجود قوم کو توقع تھی کہ حکومت کشمیر پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل دے گی مگر 27 اگست کے بعد پاکستان میں داخلی اختلافات کو فروغ دیا گیا۔ قومی اتفاق رائے کو سبوتاژ کیا گیا اور سیاسی لڑائی اور اختلافات کی وجہ سے مسئلہ کشمیر دب کر رہ گیا۔ دنیا بھی ہمیں دیکھ رہی ہے کہ یہ کیسے حکمران ہیں مدعی سست گواہ چست والی بات کر رہے ہیں۔ 72 سالوں سے کشمیریوں کی عظیم جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں

اپنا تبصرہ لکھیں