پاکستان میڈیا تھنک ٹینک اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(ڈیموکریٹس) کے زیر اہتمام۵۸ ویں یوم دفاع پاکستان کے حوالے سے ایک تقریب ہوئی‘ جس میں پاکستان مسلم لیگ(ضیاء الحق شہید) کے صدر محمد اعجاز الحق‘ پاکستان تحریک انصاف کے انوار الحق رامے‘ پاکستان تحریک انصاف کے محمد افتخار چوہدری‘ مقبوضہ کشمیر کے راہ نماء کل جماعتی حریت کانفرنس کے راہنماء محمد فاروق رحمانی اور لانس نائیک محمد محفوظ شہید (نشان حیدر) کے بھتیجے اسد معروف‘ سینیئر اینکر پرسن رضا عباس‘ سینیئر جرنلسٹ‘ مرزا عبد القدوس‘ انجیئر محسن خان جنجوعہ‘ تاجر راہ نماء مدثر فیاض چوہدری‘ بلال احمد‘ اعجاز احمد‘ سردار محمد احسان عباسی‘ ملک کے نام ور وکیل عامر رضا ایڈووکیٹ‘ طالب علم محمد علی اور دیگر شریک ہوئے‘ شرکاء کے شہداء پاکستان کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور اس عزم کا اظہار کیا ہے وہ بھی جب بھی وطن کو ان کی زندگیوں کی ضرورت پیش آئی‘ اپنی جان وطن عزیز کے دفاع کی خاطر قربان کرنے بھی گریز نہیں کیا جائے گا‘ لانس نائیک محمد محفوظ شہید(نشان حیدر) کے بھتیجے اسد معروف نے محفوظ شہید کی زندگی پر گفتگو کی اور بتایا کہ وہ کبڈی کے بہترین کھلاڑی تھے‘ اور گھر میں‘ چوپال میں جب بھی بات ہوتی تو ہمارا خاندان یہ دعوی کرتا تھا کہ جب بھی ملک کو ہماری ضرورت پیش آئی ہمارا خون حاضر ہے‘ ہمارے خاندان کا یہ دعوی ہمارے چچا محفوظ شہید نے سچ ثابت کر دکھایا‘ انہوں نے بتایا کہ جب ان کی شہادت ہوئی تو اس وقت ان کی ابتداء میں تدفین گاؤں کے قبرستان میں لیکن عسکری حکام کے مشورے پر ان کا جسد خاکی کسی دوسری جگہ منقتل کیا گیا تاکہ شہید کی قبر اور مزار کی تعمیر ہوسکے اور شہید کو سلامی دینے کے انتظامات میں آسانی رہے جب ان کی شہادت ہوئی تھی اس وقت میرے والد جو‘ خود بھی فوج میں تھے اور اس وقت کارگل کے محاذ پر تھے اس لیے شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے تھے لیکن جب شہید کا جسد خاکی کسی دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو وہ اس وقت گاؤں میں تھے اور ان کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہوا‘ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ اپنے بھائی کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے تھے لہذا انہوں نے علماء سے درخواست کی کیا وہ شہید کا دیدار کر سکتے ہیں‘ انہیں بات کی اجازت دی گئی اور دوسریی بار پھر نماز جنازہ ادا کی گی‘ میرے والد بتاتے ہیں انہیں یہ پابند بنایا گیا تھا کہ وہ شہید کا دیدار تو کریں تاہم کسی کو بتائیں گے نہیں‘ لیکن میری دادی اماں نے انہیں بہت اصرار کیا اور مجبور کیا اور جس پر انہیں سب کچھ بتاتا پڑا‘ ان کے مطابق شہید کا جب دیدار کیا تو ان کے چہرے کی داڑھی کے بال کوئی ڈیڑھ انچ بڑھے ہوتے تھے اور جسم بھی ایسا کہ جیسے سو رہے ہوں‘ باالکل ترو تازہ‘ جسم سے خور رس رہا تھا اور اس خون کو ایک پلیٹ میں جمع کیا گیا‘ اسد معروف کے والد محترم کی یہ گواہی کافی ہے کہ اللہ کا فرمان سچ ہے کہ اللہ کی راہ میں جان دینے والے شہید کو مردہ نہ کہو‘ وہ زندہ ہیں‘ اسد بتاتے ہیں کہ جب شہید کی تدفین ہوئی تو اس وقت شہید کی ایک ٹانگ نہیں تھی وہ دشمن کے گولے سے اڑ گئی تھی‘ اور جسم سے اسی وجہ سے مسلسل خون رس رہا تھا‘ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ اسد معروف کی گفتگو سن کو ان کا یقین اور پختہ ہوگیا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں‘ انہوں نے ایسی شہادتوں کی داستان ہمیں اپنی نوجوان نسل تک بھی پہنچانی چاہیے‘ تاکہ ان میں وطن سے محبت کا جذبہ پیدا ہو‘ افتخار چوہدری نے کہا کہ ہماری مسلح افواج نے دشمن کے خلاف ہر محاذ پر خوب معرکے لڑے ہیں‘ اب ضرورت ہے کہ اپنی قوم میں وہی جزبہ پیدا کیا جائے اور ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ جس میں یہ تاثر پختہ ہوجائے کہ ہماری قوم بھی اپنی فوج کے ساتھ ہے اور وطن عزیز کے دفاع کے لیے اتنی ہی بے قرار ہے جس قدر ہماری مسلح افواج ہیں‘ کسی بھی سیاسی نکتہ نگاہ کی وجہ سے قوم کو دشمن نہ سمجھا جائے‘ کل جماعت حریت کانفرنس کے راہنماء محمد فاروق رحمانی نے کہا کہ ہمیں شہداء کی قربانیوں کا یاد رکھنا چاہیے۔
یہ بات قبل ذکر ہے کہ ہفت روزہ طانیا کی ویب سائٹ کا افتتاح جناب اسد معروف‘ جناب سعود ساحر جناب چوہدری محمد سرور اور محسن خان جنجوعہ نے مشترکہ طور پر کیا تھا اور یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اس کا افتتاح محب وطن شخصیات اور محمد محفوظ شہید(نشان حیدر) کے خاندان کے ایک فرد اور شہید کے حقیقی بھتیجے کے ہاتھوں ہوا
