جدہ کے نامور پاکستانی باعث افتخار چوہدری شفقت محمد دھول


ایک عرصے ایک لمبے قد آور شوشھفتار پاکستانی سے چوہدری اعظم آف زہرہ ہوٹل کی وساطت ملا جو آہستہ آہستہ پاکستانی کمیونٹی میں اپنے حسن اتفاق کی وجہ سے چھا گئے رحمت ہوٹل کے میں شراکت کی کفیل کے ساتھ مل۔کر طائف کے علاقے میں الیکٹریکل کے شعبے میں کام کیا وہ ڈپلومہ انجیر ہیں آئیے ان کی زبانی سنتے ہیں ۔نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
میرے والد کا نام چوہدری افضل دھول تھا وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اور ان کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ میں نے اپنے دادا جان کو تھوڑا سا دیکھا ہے، میں نے دیکھا ہے وہ والد صاحب سے بڑا پیار کرتے تھے۔ دادا جان ہمیں بھی بہت لاڈ پیار کرتے تھے۔ والد صاحب ان دنوں پڑھائی میں مصروف تھے لیکن 1971 میں دادا جان کی وفات ہو گئی۔ اس وقت والد صاحب اسلام آباد میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ وہ اتنے لاڈلے تھے کہ اسلام آباد میں تعلیم کے دوران بھی ان کا خرچ گھر سے جاتا تھا۔زیادہ تر لوگ اپنا خرچ کام کاج کر کے پورا کرتے تھے
ہمارے دادا جان زمیندار تھے اور ان کا تعلق زمینداروں کے متمول گھرانے سے تھا۔
جہاں ہماری رہائش تھی یہ گجرات کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو معلومات ہمارے پاس ہیں یا گجرات کی کتابوں میں موجود ہیں، ان کے مطابق یہ گاؤں تقریباً 200 سال پرانا ہے۔ داداکے تین بھائی تھے۔ ہماری کاسٹ دھول جاتی ہے اور گاؤں کا نام بھی دھول جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تین بھائیوں میں سے ،ایک بھائی یہاں رہ گیا، دوسرے بھائی سرگودھا چلا گیا اور ایک بھائی گجرات کی دوسری سائیڈ پر دھول چھپانا
میں آباد ہو گیا
ہم تقسیم سے پہلے ہی اسی گاؤں میں تھے، اس لیے ہمیں تقسیم کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ والد صاحب زمیندار تھے اور علاقے میں ان کا نام جانا پہچانا تھا جب وہ سیاست میں آئے تو لوگ انہیں اچھی طرح جانتے تھے ۔ والد صاحب کو اس علاقے کے جتنے بھی ڈیرے داری اور چودھراہٹ کے معاملات ہوتے تھے، سب میں شامل رکھا جاتا تھا۔ میں نے اپنے والد صاحب کو گاؤں اس پاس کے دیہات کے معاملات میں ان سے مشاورت کی جاتی تھی اور ان سے چھوٹے موٹے جھگڑوں کے فیصلے بھی کرائے جاتے تھے بلکہ ایک بار تو یہ ہوا کہ کچھ معاملات بگڑے تو ایک شخص کا قتل ہو گیا بہت عرصہ تک عدالتوں میں لوگوں کا انا جانا ہوا اور ملزم کو سزائے موت ہو گئی لیکن والد صاحب کے اثر رسوخ سے قاتل اور مقتول کے گھرانوں نے آپس میں صلح کر لی اور اتنی پائیدار صلح ہوئی کہ بعد میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا
گاؤں میں اگر کسی عورت کا سر پر دوپٹہ نہ ہوتا تو وہ انہیں ڈانٹ دیتے تھے، اور اگر کسی لڑکے کے بال بڑے ہوتے تو نائی کو بلا کر ان کے بال ٹھیک کرواتے تھے۔منصف اتنے اچھے تھے کہ ہمیں ڈر رہتا کہ کوئی ہماری شکایت ہمارے والد صاحب کو نہ کر دے اور پھر ہماری پٹائی نہ ہو جائے گاؤں کے لڑکے ان سے مشورہ کرتے اپنی تعلیم کے لیے نئی راہیں ڈھونڈنے کے لیے میرے والد صاحب کے پاس اتے یہ ان دنوں کی بات ہے کہ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلتے اور اپنے گاؤں کی عزت کا بہت خیال کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی اولاد کو بڑی محنت سے پڑھایا اور لکھایا تو سب سے بڑی ان کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے ہمارے چاروں بھائیوں کو یہ تلقین کر رکھی تھی کہ اپنی زندگی صاف ستھری گزارنا میں تو والدین کا صرف اکیلا ہی بیٹا تھا میں نے یہ تجربہ نہیں کیا اور نہ مجھے تجربہ ہوا کہ بھائیوں کے ساتھ کیسے رہا جاتا ہے اپ چاروں بھائی ہو یہ خیال کر رہا ہوں کہ اپس میں محبت پیار سے رہنا
والد صاحب بہت بااصول تھے اور ہمیں بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ زندگی میں کسی کو دھوکہ نہیں دینا اور سچ بولنا۔ انہوں نے بہت بڑے بڑے فیصلے کیے اور جو بھی بات کہتے، لوگ اس پر عمل کرتے۔ ان کاقدچھ فٹ تھا اور ان کی شخصیت بڑی باوقار تھی۔ وہ ہمیشہ جناح کیپ پہنتے تھے اور اس کے شیروانی پہنتے تھے۔ جس دن ان کی وفات ہوئی، وہ ایک شادی کے فنکشن سے واپس آئے اور دل کا دورہ پڑنے سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اسی دن بھی ابا جی وہی خوبصورت لباس پہنا ہوا تھا ان کی عمر اس وقت 72 سال تھی اور انہوں نے بھرپور زندگی گزاری ۔ نماز سے ان کا بہت لگاؤ تھا اور نماز بڑے سکون سے پڑھتے تھے۔خشوع و خضوع سے نماز پڑھنا ان کی عادت تھی محسوس یہ ہوتا تھا کہ بندے اور خدا کے درمیان بات چیت جاری ہے ۔
والد صاحب 1931 میں پیدا ہوئے تھے اور جب پاکستان بنا تو انہوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ 1965 کی جنگ بھی دیکھی تھی۔ وہ ہمیں اکثر نصیحت کرتے تھے کہ آپ چار بھائی ہیں، اور میں نے اپنے بھائی کی محبت کبھی نہیں دیکھی۔ آپ لوگ کبھی ناراض نہ ہونا، بھائی بھائی کے ساتھ اچھے لگتے ہیں۔ اسی فلسفے پر ہم نے ان کی زندگی میں گھر بنانے شروع کیے تھے اور انہیں اس طرح ڈیزائن کیا کہ ہم چاروں بھائی اپنے اپنے دروازے پر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھ سکیں تو ایک دوسرے کے چہرے نظر آتے ہیں وہ پنجابی کے اس اکھان کے مطابق بھائی بھائیوں کو پیچھا نہ دکھائیں ۔ الحمدللہ، یہ ان کی تربیت اور نصیحت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے زندگی میں قدم قدم پر ہمیں پیار محبت سکھایا ۔ ان کو تعلیم کا بہت زیادہ خیال تھا کہ میرے بچے پڑھیں۔ پڑھائی کے معاملے میں انہوں نے بہت سختی کی۔ ہم پر کوئی رعایت نہیں تھی۔ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ اگر سکول سے کسی وجہ سے چھٹی کر لی یا نہیں گئے تو اس پر خوب پٹائی ہوئی۔ ہمیں آوارہ گردی کی اجازت نہیں تھی، غلط محفل میں بیٹھنے پر پٹائی ہوتی تھی ، غلط دوست رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمیں اچھے دوست رکھنے، اچھی گفتگو کرنے کی تاکید تھی، فضول گفتگو کی اجازت نہیں تھی۔
گاؤں میں ایسا ماحول بپاء کر رکھا تھا کہ ہر کوئی خوش تھا ، والد صاحب نے ایک بہت اچھی زندگی گزاری اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ سیاسی طور پر والد صاحب چوھدری ظہور الٰہی کے ساتھ تھے، کیونکہ وہ بھی زمیندار تھے۔ میرے والد صاحب کی شادی بھی وڑائچوں میں ہوئی تھی چوہدری ظہور الٰہی بھی وڑائچ تھے
انہی کے خاندان میں ہوئی تھی، جو کہ بڑا اچھا خاندان ہے۔ ان کا آپس میں بہت اچھا تعلق تھا۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ لوکل الیکشن میں ہمارے علاقے میں ایک ایسا فرد کھڑا ہو گیا جس کی شہرت اچھی نہیں تھی۔ والد صاحب نے چوھدری صاحب کو کہا کہ وہ اس کو ووٹ نہیں دیں گے۔ چوھدری شجاعت حسین بھی ہمارے گھر آئے اور کہا کہ “چوھدری صاحب، آپ ہمیشہ سے ہمارے ساتھ رہے ہیں، مہربانی کریں۔ اگر آپ ہمیں ووٹ نہیں دیتے تو کوئی بات نہیں، لیکن مخالفت نہ کریں۔” والد صاحب نے ایک زبردست جملہ کہا: “جس شخص کو میں پسند نہیں کرتا، میں کیسے چاہوں گا کہ وہ لوگوں کی امانت اس کو چلی جائے؟” اس کے بعد انہوں نے کینڈیڈیٹ نہیں بدلا اور والد صاحب نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔
یہ میرے والد صاحب کی زندگی کا نچوڑ ہے جو آج بھی اللہ کے فضل و کرم سے والد صاحب کے مرنے کے بعد ہم نے اپنے بھائی کی شکل میں دیکھا۔ ہمارے گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، جو والدین کی محبت، شفقت اور ان کا ہمارے ساتھ حسن سلوک کا نتیجہ ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ آج بھی ہم ان کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں انسان اپنے والد کی مثال پر چلتا ہے۔ جب میں رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو مجھے اپنے والد، چوہدری افضل دھول، یاد آتے ہیں۔ جب کبھی بھی ادھر ادھر کی سوچ آتی ہے تو والد صاحب کی شخصیت سامنے آ جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کاروبار میں دھوکہ دہی ہوتی ہے، لیکن اللہ نے مجھ پر کرم کیا اور مجھے اور میرے بڑے بھائی کو سعودی عرب بھیج دیا، جہاں ہم بہت سی مشکلات سے بچ گئے۔ اور رزق حلال کمایا ۔ یہاں نماز پڑھنے کی سہولت اس قدر ہے کہ نماز نہ پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔
آج کے ماحول میں محمد بن سلمان اور خادم حرمین شریفین نے پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کو جو سہولتیں دی ہیں، ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ والد صاحب کی جناح کیپ، شیروانی، اور سفید شلوار قمیض آج بھی میرا دل چاہتا ہے کہ ان کے کپڑوں پر کوئی سیاہ داغ نہ لگے۔ ہم اپنے والد صاحب کے لیے ہر نماز میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک، تو نے ہمیں ایک عظیم شخص کا بیٹا بنایا، ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جو ہمارے لیے باعث ندامت ہو۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

اپنا تبصرہ لکھیں