عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے پاکستان کیلئے 7ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی منظوری سے ایک طرف موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار ہوا ، دوسری جانب دوست ملکوں کی اعانت کے روشن امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔مذکورہ اعلان اس اعتبار سے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے اس پیکیج میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ مالیاتی امور سمیت مختلف مشکلات کا سامنا کسی بھی ملک کو پیش آسکتا ہے اور عالمی ادارے اس باب میں ممکنہ حد تک اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قیام کا مقصد بھی سنگین بحران میں مبتلا ممالک کو عارضی طور پر مالیاتی وقتی اعانت فراہم کرنا اور معاشی ڈھانچے کی خرابیوں سمیت اصلاح طلب امور کو درست سمت پرلانے کے طریقوں کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ اس معاملے میں چونکہ بھاری سرمایہ کی فراہمی اورو صولی کے کام انجام پاتے ہیں اس لئےطے شدہ شرائط پر معاہدہ لازمی قرار پاتا ہے جن پر عملدرآمد کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جاتا رہتا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 12جولائی کو اسٹاف کی سطح پر قرض پروگرام طے ہوا تھا جس کی حتمی منظوری مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے بدھ 25ستمبر کو اپنے اجلاس میں دی۔ آئی ایم ایف پروگرام اگرچہ بجائے خود وقتی مالی قرضے کی فراہمی کا ذریعہ ہےتاہم اس کی وجہ سے دوسرے مالیاتی اداروں اور ممالک کی طرف سے معاونت کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں۔25ستمبر کے آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں منظور کئے گئے پیکیج کے حوالے سے ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کا یہ اعتراف سامنے آیا ہے کہ اسلام آباد نے مثبت اصلاحات کی ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت بہتر ہوئی، درست سمت میں گامزن ہوئی اور امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں کی مدد کی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف سے جاری اعلامیہ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ قرض پروگرام کا مقصد پاکستان میں معاشی استحکام لانا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس پروگرام سے دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کی مدد کےپہلو قوی ہوئے ہیںجبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے پیکیج کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قرض کے حوالے سے معاونت فراہم کرنے پر دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب ، چین اور متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انہوں نے معاشی ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ اگر یونہی محنت جاری رہی تو انشاء اللہ یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 37مہینوں پر محیط 7ارب ڈالر کا یہ پیکیج ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ ہے جو زرعی ٹیکس میں ترمیم اور بعض مالیاتی ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کرنے سمیت کئی اہم وعدوں پر حاصل ہوا ہے۔پیکیج کے تحت 1.1ارب ڈالر کی پہلی قسط 30ستمبر تک ملنے کا امکان ہے جبکہ دوسری قسط بھی اسی مالی سال میں آئے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیا قرض پروگرام 5فیصد شرح سود سے کم پر ملے گا۔ اس پیکیج کی حتمی منظوری کے لئے کئی شرائط پوری کرنے میں کامیابی اُس منزل کی راہ کا ایک مرحلہ ہے جو جلد آئے گی اور پاکستان یہ کہہ سکے گا کہ اسے اب مالیاتی ادارے سمیت بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں۔ اِس وقت کی صورتحال کئی اعتبار سے امید افزا ہے ۔وطن عزیز کرنسی کے استحکام ، زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافے ، ٹیکس نیٹ میں اضافے، توانائی مسائل کے حل، پرائیویٹائزیشن، ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ اس کے بعد کا معاشی سفر یقیناً خوشگوار ہوگا۔ پاکستانی قوم جس عزم سے آگے بڑھ رہی ہے، اس میں کامیابیوں کی اگلی منزلوں کا حصول ہر گزرتے دن آسان ہورہا ہے۔
