مضر صحت پلاسٹک کی بلاروک ٹوک درآمدی سرگرمیاں جاری

18 مئ , 2020 0 تبصرے

ملک میں جنوری 2019سے اپریل2020 تک تک 65000میٹرک ٹن مضرِ صحت اور آلودہ پلاسٹک اسکریپ کی درآمدات ہوئیں، مضر صحت پلاسٹک کی بلاروک ٹوک درآمدی سرگرمیاں جاری رہنے سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ پاکستان کو منصوبہ بندی کے تحت مضر صحت پلاسٹک اسکریپ کا عالمی ڈمپنگ مرکز بنایا جا رہا ہے جبکہ دنیا بھر کے بیشتر ممالک پلاسٹک اسکریپ پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ ناقص قوانین نے ملک کو ہر طرح کے مضرپلاسٹک اسکریپ کیلئے ڈمپنگ گراؤنڈ میں تبدیل کردیا ہے جو باسل کنونشن کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جنوری 2018میں چین نے اپنے عوام کو صحت اور ماحول کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لئے اپنے ملک میں ہر قسم کے پلاسٹک اسکریپ کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کردی تھی تاہم اس پابندی سے قبل چین گزشتہ 25 سالوں سے تقریباًآدھی دنیا کا پلاسٹک اسکریپ درآمد کررہا تھاجبکہ بھارت، تھائی لینڈ، ویتنام، ملیشیا اور دیگر ایشیائی ممالک نے ماحولیاتی تباہی سے بچنے کیلئے اپنے ملکوں میں پلاسٹک اسکریپ کی درآمد پر یا تو مکمل پابندی عائد کردی یا قوانین کو مزید سخت کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق “باسل” کنونشن کا دستخط کنندہ ہونے کے باوجود پاکستان پلاسٹک اسکریپ کے حوالے سے اب بھی نسبتاًنرم قوانین اور ریگولیٹری فریم ورک پر انحصار کررہا ہے اور حالیہ برسوں میں چین میں پلاسٹک اسکریپ کی درآمد پر پابندی کے بعد سے ملک میں آلودہ اور مضرِ صحت پلاسٹک اسکریپ کی درآمد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ 2018میں ملک میں آلودہ پلاسٹک اسکریپ کی درآمد30 فیصد اضافے کے ساتھ 47000میٹرک ٹن تک پہنچ گئی تھی جبکہ یہ مقدار 2017میں حیرت انگیز طور پر 200فیصد اضافے کے ساتھ 36000میٹرک ٹن تک پہنچ چکی تھی۔ صنعتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ہرسال سات لاکھ ٹن گھریلو پلاسٹک فضلہ پیدا کرتا ہے جس میں سے زیادہ ترری سائیکلنگ کے بغیر زمین بُرد ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ملک میں سیوریج پائپ، ہسپتالوں کا فضلہ،آلودہ پلاسٹک دانہ اور پاؤڈر اور فلیکس کی صورت میں دیگر پلاسٹک اسکریپ اور عالمی کچرے کی درآمد جاری ہے۔ یہ درآمد ات خاص طور پر برطانیہ، بیلجیئم، کینیڈا، جرمنی اور سعودی عرب سے کی جارہی ہیں جس سے پاکستان میں پلاسٹک سے پیدا شدہ آلودگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انڈسٹری نے تجویز دی ہے کہ پلاسٹک کے فضلے کی تجارت اور ملک میں آلودگی کے مسئلے کے پیشِ نظر وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کو تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئیے تاکہ ماحول کو بچایا جا سکے۔