بحران کا آغاز ماضی کے متعدد بحرانوں سے ملتا جلتا

سن ۱۹۹۸ میں جوہری طاقت ہونے کے اعلان کے بعد سے تاحال، پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے سنگین ترین اور تازہ ترین بحران کو ایک برس ہوچکا ہے۔ تاہم تناؤ میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ برس لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر کی خلاف ورزی کے واقعات میں اضافہ ہوا، نیز بھارتی قیادت خطرے مول لینے کیلئے زیادہ تیار دکھائی دی جو چند بیانات سے ظاہر ہوا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ بھارت پاکستان کیخلاف جنگ کو سات سے دس دنوں میں نمٹا سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے وزیراعظم عمران خان نے خبردار کیا کہ کشمیر تنازعے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوشش کشیدگی میں تیز اضافہ کرسکتی ہے
بحران کا جائزہ
بحران کا آغاز ماضی کے متعدد بحرانوں سے ملتا جلتا تھا یعنی کہ بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر میں ایک خود کش بم دھماکہ۔ اس واقعے میں حملہ بھارتی زیرانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری نوجوان کی جانب سے فوجی گاڑیوں کے قافلے پر کیا گیا جس میں بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ۴۰ سے زائد جوان مارے گئے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تاہم کالعدم قرار دیئے گئے جنگجو گروہ جیش محمد (جے ای ایم) کی جانب سے ریلیز کردہ ویڈیو پیغام میں ڈار کے تنظیم سے تعلق کے دعوے کے بعد واقعے کا الزام پاکستان پر دھر دیا گیا۔دو ہفتے بعد، ۲۶ فروری کو بھارتی فضائیہ نے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاصلے سے نشانہ بنانے والے ہتھیاروں کی مدد سے حملہ کیا۔ اکثریت کی رائے میں بھارت کی جانب سے خطرہ مول لینے کا سبب آنے والے ملکی انتخابات نیز بھارتی پالیسی میں تبدیلی تھے جو ستمبر ۲۰۱۶ میں اڑی سیکٹر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے کے بعد سے جاری ہے۔ اڑی کے بعد بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ سرجیکل سٹرائیکس کی ہیں جس دعوے سے پاکستان نے شدید اختلاف کیا تھا۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ان حملوں سے انکار اور جوابی ردعمل نہ دینے کے باعث بھارت کو پلوامہ حملے کے بعد شہہ ملی اور یہی وجہ تھی کہ ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان کیلئے بالاکوٹ حملے کے بعد ردعمل دینا ضروری ہوگیا تھا۔پلوامہ حملے کے بعد تناؤ میں اضافے کے دوران، پاکستان کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ وہ کسی بھی فوجی کارروائی سے باز رہے، بصورت دیگر وہ جوابی کارروائی کیلئے مجبور ہوگا لہذا، پاک فضائیہ نے ۲۷ فروری کی صبح جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے لڑاکہ طیاروں کے درمیان فضا میں جھڑپ ہوئی۔ لڑائی کے بعد اسلام آباد کی جانب سے گرفتار کئے گئے پائلٹ کی واپسی درحقیقت وہ فیصلہ تھا جس نے بحران میں کمی کیلئے باعزت راستہ فراہم کردیا۔

”جوہری بلف“ اور ”کوئڈ پروکو پلس“
بھارتی تزویراتی حلقوں نے بالاکوٹ بیانیئے کو توڑنے مروڑنے میں پھرتی دکھاتے ہوئے یہ دعویٰ کرڈالا کہ ان حملوں نے پاکستان کے ”جوہری بلف“ کو آشکار کردیا ہے۔ تقریباً دو دہائیوں تک ڈاکٹرائن کی جنگی مشق کرنے کے بعد بھارت نے دوران بحران بین الاقوامی سرحد پار سی ایس ڈی کے اطلاق کے بارے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کی جس سے پاکستان کے اس خیال کو مضبوطی ملتی ہے کہ نصر میزائل ہی نے بھارت کی جانب سے محدود پیمانے پر سرحدی خلاف ورزی کے خطرے کے خلاف موثر ڈیٹرنس فراہم کی ہے۔بالاکوٹ حملے پر پاکستانی ردعمل یہ تجویز کرتا ہے کہ مستقبل میں پاکستان ایسے کسی بھی سرحد پار سے کئے گئے حملے کے جواب میں اپنے طاقتور روایتی ہتھیاروں پر زیادہ انحصار کرے گا۔ پاکستان کے سٹریٹیجک پلانز ڈویژن کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور نیشنل کمانڈ اتھاڑی کے موجودہ مشیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے روایتی فوجی حملے کی صورت میں پاکستان ”کوئڈ پرو کو پلس“ حکمت عملی اپنائے گا۔ پاکستان کے تزویراتی حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس قسم کی حکمت عملی بھارت کو پاکستان کیخلاف کسی قسم کی جنگی کاروائی کرنے سے روک سکتی ہے یا پھر کم از کم اس جارحیت کو محدود رکھنے پر مجبور کرے گی جب تک پاکستان روایتی نیز تزویراتی صلاحیتوں کے اعتبار سے فل سپیکٹرم ڈیٹرنس کے موثر ہونے کو یقینی بنائے رکھے گا، ڈیٹرنس برقرار رہے گی۔ اس بحران سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بھارت پاکستان کیخلاف جوہری جنگ کی حد کو چھوئے بغیر پاکستان کیخلاف محدود جنگ چھیڑنے کیلئے مواقع کی تلاش میں رہے گا، جس کیخلاف پاکستان کو بھرپور ڈیٹرنس کی حکمت عملی جیسا کہ اس کی ”کوئڈ پرو کو پلس“ پالیسی سے عیاں ہے اس کے تحت ردعمل دینا ہوگاپلوامہ حملے کے بعد بھارتی جوابی کاروائی اور بعد ازاں پاکستانی ردعمل کی صورت میں اس بحران کے ذریعے ”محدود ردعمل“ دینے کیلئے فضائی طاقت کا نیا طرزِ استعمال دیکھنے کو ملا ہے ۔ فضائی لڑائی کی رفتار اور اس میں تیز اضافے کے ممکنہ خطرے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ردعمل دینے کی مختلف اشکال میں یہ ایک خطرناک اضافہ ہے۔ جدید لڑاکا طیاروں اور فوج میں تیزی سے آتی جدت کے سبب اس قسم کی فضائی طاقت کے اظہار میں محض اضافہ ہی ہوگا۔ اس حوالے سے پاکستان کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی سپاہ کو جدید ترین بنانے کی جانب توجہ دینا ہوگی تاکہ مستقبل میں ہر قسم کے خطرات کیخلاف ڈیٹرنس یقینی بنایا جاسکے