اگر کسی ملک کے سماجی اور سیاسی معاملات میں مذہب کو زبر دستی نہ گھسیٹا جائے تو اسے ایک سیکولرملک کہا جاتا ہے ۔ ایک سیکولر ملک میں مذہبی اداروں کو سیاستی اداروں سے جدا ہو نا چاہئیے اور ایک ایسا ماحول میسر آنا چاہیئے جس میں مذہبی رسومات کی ادائیگی میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہ ہو اور اسی طرح ریاستی امور چلانے میں مذہب کا کوئی کردار نہیں چاہونا چاہیئے ۔ جہاں سیکولرازم ہو وہاں سب لوگ برابر سمجھے جاتے ہیں اور وہاں مذہبی عقائد ، ذات پات اور سماجی حیثیت کوئی معنے نہیں رکھتے ۔ ایک سیکولر ملک میں عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ لوگوں کی عبادت گاھوں کو تحفظ فراہم کرے ۔ بدقسمتی سے بھارت ایک ایسا ملک ہے جس نے ہمیشہ سیکولر ازم کا چیمپین ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن درحقیقت اس نے ہمیشہ سیکولرازم اور جمہوریت کی دھجیاں اڑائی ہیں ۔اسکی سب سے بڑی مثال کہ بھارت ایک غیر سیکولر اور شدت پسند ملک ہے بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جیسے انتہا پسند ہندوئوں نے 1992میں مسمار کر دیا تھا ۔ اس پر طرہ یہ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے نومبر 2019میں ہندوئوں کے اس عمل کو جائز قرار دے دیا ۔ درحقیقت 9نومبر 2019کو بابری مسجد پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے دنیا بھر کے قانون دانوں اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین کو حیران کرکے رکھ دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں رہنے والے غیر جانبدار مبصرین جو انصاف اور قانون کی بالا دستی کے قائل ہیں وہ بھی بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر انگشت بد نداں ہیں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق با بری مسجد کی 2.77ایکڑ زمیں ہندوں کو دی جائے گی تا کہ وہ اس پر رام مندر کی تعمیر مکمل کر سکیں جو کہ ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق رام کی جنم بھومی ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے بدلے میں کسی دوسری جگہ پر 5ایکڑ زمین مسلمانوں کو دے دی جائے جس پر وہ بابری مسجد تعمیر کرلیں ۔اس متنازعہ فیصلے کے بعد غیر جانبدار مبصرین سپریم کورٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں جو ہندوئو ںکی ناجائز حمایت کرتی ہے اور آر ایس ایس کی ہندو توا آئیڈیالوجی پھیلانے میں انکی مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔بھارتی سپریم کا یہ فیصلہ دراصل بھارت کی سب سے بڑی عدالت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے ۔ دنیا بھر کے آزاد اور غیر جانبدار ماہرین قانون نے اس فیصلے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے اور چاہتے ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ اپنے متنازعہ فیصلے پر نظر ثانی کرے ۔ بد قسمتی سے اس فیصلے کو ایک سال ہو چکا ہے لیکن ابھی تک بھا رتی سپریم کورٹ نے اپنی اس تاریخ ساز غلطی کا کوئی ازالہ نہیں کیا ۔ یاد رہے کہ6دسمبر 1992ء کو انتہا پسند ہندو پورے بھارت سے ایودھیا میں اکھٹے ہوئے تھے اور پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کی معاونت سے انہوں نے تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا جس کے بعد ا یو دھیا میںہنگامے پھوٹ پڑے تھے جس میں 2ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہو گئے تھے ۔بھارتی سیکولر ازم کی اس سے بدتر مثال پیش نہیں کی جا سکتی ۔ اس وقت کے یو پی کے وزیر اعلٰی کلیان سنگھ نے صاف انکار کردیا کہ انہوں نے مسلمانوں پر تشدد کی اجازت دی بلکہ الٹا رام مندر کی جلد از جلد تکمیل کا مطابہ کردیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ انہیں بابری مسجد کی شہادت کا کوئی افسوس نہیں کیونکہ بابری مسجد کو ایک دن مسمار ہونا تھا اور اسکی جگہ پر رام مندر بن کر رہنا تھا ۔ پی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی بابری مسجد کی شہادت میں پیش پیش تھے ۔یہ کریہہ حرکت کانگریس کی حکومت کے دور میں پیش آئی جو سیکولرازم کا پرچار کرتے نہیں تھکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت 1947ء سے ہی ایک تشدد پسند بلکہ بنیاد پرست ملک ہے جو بین الاقوامی برادری میں اپنا ایک نرم روپ پیش کرنے کیلئے سیکو لر ازم کا لبادہ اوڑھتا ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے اور بھارت ایک ایسا ملک ہے جو عدم برداشت کا قائل ہے جس میں اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اونچی ذات کے ہندو اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے حقوق ہر روزغصب کرتے ہیں ۔ وہ علاقے جہاں پر اقلیتیں رہتی ہیں ان علاقوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا جاتا ہے ۔ ان علاقوں میں بنیادی انسانی ضرورتیں مہیا نہیں کی جاتیں اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں لوگ تعلیم حاصل نہ کر سکیں ۔ اقلیتوں کے ساتھ ساتھ نچلی ذات کے ہندوؤں اور دلتوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ بھارت میں سکھوں کو جو کہ آبادی کا 1.9فی صد حصّہ ہیں ہمیشہ سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہندو انہیں بھارت کے مخالفین تصور کرتے ہیں ۔ یہی حال عیسائیوں کا ہے جو کل آبادی کا 3فیصدہیں ۔ بھارت میں انکی زندگی بھی اجیرن ہے اور انہیںمجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کے ہندو بن جائیں ۔ مسلمانوں کے حالات بھی بھارت میں بہت تنگ ہیں حالانکہ یہ بھارت کی کل آبادی کا 15فی صد حصّٰہ ہیں ۔ انہیں بھی مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو ہندو ازم اپنا لیں یا پھر بھارت سے نکل جائیں ۔ ایک سروے کے مطابق مذہبی عدم روا داری میں کل 198ممالک میں بھارت چوتھے نمبر پر آیا ہے ۔ بین الاقوامی مبصرین نے انکشاف کیا ہے کہ 2014ء سے 2020ء کے دوران یعنی نریندر مودی کی حکومت کے دوران مذہبی انتہا پسندی اور ریاستی دہشت گردی کے واقعات زیادہ رونما ہوئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر واقعات اقلیتوں کے خلاف عمل میں آئے ہیں ۔ 2019ء میں بھارتی پارلیمنٹ نے ایسے قوانین بنائے ہیں جو سیکو لر ازم اور جمہوریت کے منافی ہیں ۔ 2019ء میں پاس ہونے والاسویلین امینڈمنٹ ایکٹ (CAA)سیکو لر ازم اور جمہوریت کے خلاف بدترین مثال ہے۔ درحقیقت آر ایس ایس کی شدت پسندی ، ہندو توا کی آئیڈیا لوجی کے تحت ہندوؤں کی انتہاپسندی اور ہندوؤں کی اقلیتوں کے خلاف حکمت عملی کو قانونی تحفظ دیناایک خطر ناک عمل ہے جس کو اگر روکا نہ گیا تو اس کے انتہائی خوف ناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔ شدت پسندی ، انتہا پسندی اور اقلیتوں کے خلاف ناجائز ایکشن بین الاقوامی قوانین ، یو این چارٹر اور بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے جس کی ہر فورم پر مذمت ہونی چاہیے۔
