اگر کرو نا کی تبا ہ کا ریوں سے بچنا ہے تو

اس میں کو ئی شک نہیں کہ پا کستان اس وقت اپنے مشکل ترین دو ر میں سے گزر رہا ہے ۔ کرو نا وائرس نے پا کستان سمیت پو ری دنیا کی معیشتو ںکو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ سا ری دنیا کہہ رہی ہے کہ اس وبا ء کا مقا بلہ کر نا کسی اکیلے ملک کا کام نہیں بلکہ دنیا کو ہلا کت سے بچا  نے کے لیے ملکر کا م کر نا ہو گا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی تر قی یا فتہ مما لک سے مطا لبہ کیا کہ مشکل کی اس گھڑی میں غریب مما لک کی ما لی امداد کر یں اور ان کے قر ضے معا ف کر دیں تا کہ وہ پو ری تن دہی سے بیما ری کا مقا بلہ کر سکیں ۔نتیجتاًجی۔20مما لک نے تر قی پزیر مما لک کے قر ضو ں کی وا پسی میں چھ مہینے کی سہو لت فرا ہم کر دی ہے۔ پا کستان ان چند خو ش نصیب مما لک میں سے ایک ہے جس نے کرو نا کا مقا بلہ نسبتاََآ سا نی اور کا میا بی سے کیا ۔ پا کستان نے سما رٹ لا ک ڈا ئون کی پا لیسی اپنا کر لو گوں کی جان و مال کی حفا ظت بھی کی اور کا رو بار بھی چلتا رہا ۔ اس کے علا وہ حکو مت نے یک وقتی طور پر عوام کو کیش پیمنٹ کی تا کہ ان کے چو لہے جلتے رہیں ۔ انڈسٹریل سیکٹر میں حکو مت پا کستان نے خصو صی مرا عا ت فراہم کیں۔ خا ص طور پر تعمیرا ت کے شعبے پر خصو صی توجہ دی گئی تا کہ مزدو ر طبقہ بے رو زگا ر نہ ہونے پا ئے۔ اس طر ح پا کستان کرو نا وائرس کی پہلی لہر کے دو ران کسی بڑے نقصان سے بچ گیا۔ پا کستان کی حکمت عملی کو پو ری دنیا میں سراہا گیا ۔ اب کرو نا کی دو سری لہر کا سامنا ہے ۔ پا کستان میں بھی اس کے منفی اثرات نا گزیر ہیں ۔ اس دفعہ وائر س کی شدت پچھلی دفعہ سے کہیں زیا دہ دکھا ئی دیتی ہے کیو نکہ اس دفعہ شر ح اموا ت پہلے سے زیا دہ ہے ۔ وائر س کی تبا ہ کا ریوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے حکو مت نے اعلا ن کیا ہے کہ کا رو با ر کو مکمل بند نہیں کیا جا ئے گا بلکہ سما رٹ لا ک ڈا ئون اور ایس او پیز پر سختی سے پا بندی کے ذریعے بیما ری کا مقا بلہ کیا جا ئے گا۔ اپنی معا شی اور سما جی مجبو ریوں کو سا منے رکھ کر دیکھا جا ئے تو اس حکمت عملی کے علا وہ کو ئی دو سرا را ستہ بھی نہیں ہے ۔ اس حکمت عملی میں کا میا بی یا ناکا می کا دا رو مدا ر بہر حا ل اس حقیقت پر مبنی ہو گا کہ ہم کتنی سنجیدگی سے ایس اور پیز پر عمل کر تے ہیں اور حفاظتی تدا بیر کو کس قدر اپنا تے ہیں ۔ اگر کرو نا کی تبا ہ کا ریوں سے بچنا ہے تو عوا م کو ماسک پہننے ہوں گے، سما جی فا صلوں کو بر قرا ر رکھنا ہو گا اور عوا می اجتما عات سے گریز کر نا ہو گا۔ اس ضمن میں حکو مت کے موقف سے اختلا ف کر نا مشکل ہو گا کہ عوا می اجتما عات کرو نا وا ئر س کے پھیلا ئو میں بہت زیا دہ کر دار ادا کر تے ہیں ۔ دیکھنے میں آ یا ہے کہ جن شہروں اور قصبوں میں اجتما عات منعقد ہو ئے وہا ں پر کرو نا پھیلنے کی شر ح نسبتاََ زیا دہ رہی ۔ کہا جا سکتا ہے کہ حکو مت عوا می اجتما عات کو رو کنے میں حق بجا نب ہے لیکن حزب اختلا ف کی جما عتیں ان پا بندیوں کو ما ننے سے انکا ر ی ہیں۔ پی ڈی  ایم کے رہنما ئوں کا کہنا ہے کہ حکو مت گرا نے کے لیے جلسے جلو س نہیں رو کے جائیں گے خوا ہ اس کے لیے کو ئی بھی قیمت ادا کر نی پڑے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چا ہے جتنی ما ضی ہلا کتیں ہو جائیں وہ حکو مت گرا کر رہیں گے یعنی ان کو عوام کی جان و ما ل سے کوئی غر ض نہیں ۔ اس سے قطع نظر کہ پی ڈی ایم کو جلسے کر نے کی اجا زت آ ئین میںہے یا نہیں ، حزب اختلا ف کے رہنماؤں کو عوام کی جان و مال کی پرواہ ہونی چاہیے۔ اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے عوام کو بے وقوف بنانا دانشمندی نہیں ۔ مشکل کے اس وقت میں پی ڈی ایم کو چاہیے کہ وہ کرونا وائرس کے خلاف جہاد میں حکومت کا ساتھ دے ۔ موجودہ سیاسی تناؤ اور حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان کشمکش سے نہ صرف بیماری کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا بلکہ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سیکورٹی کی صورتحال کو قابو میں کرنے میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔ بھارت اور افغانستان پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ حال ہی میں بھارت نے داعش کے تیس دہشت گرد پاک افغان سرحد پر لاکر بٹھا دئیے ہیں تا کہ موقع ملنے پر انہیں دہشت گرد کارروائیوں کیلئے پاکستان کے اندر داخل کیا جا سکے ۔ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ پوری قوم اتحاد کا مظاہرہ کرے ۔ اس وقت ہماری سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے ذاتی مقاصد کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاداور ملکی سلامتی پر زیادہ توجہ دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین کا آرٹیکل 15اور 16سیاسی جماعتوں کو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن ملکی صورتحال اس وقت اسکی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا ایک کلچر بن چکا ہے ۔ انتخابات میں ہارنے والے انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں کا رخ کرنے کی بجائے سڑکوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ زبر دستی حکومت کو گرایا جاسکے ۔ اس طریقے سے آج تک انصاف تو نہیں مل سکا لیکن مارشل لاء ضرور آئے ہیں جن سے ملک جمہوریت کے راستے سے مزید ہٹ جاتا ہے اور سسٹم کو واپس آتے آتے دہائیاں لگ جاتی ہیں ۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے آج تک ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ پی ڈی ایم کی حالیہ تحریک بھی ماضی میں چلنے والی تحریکوں سے مختلف نہیں ۔ اس تحریک سے بھی حزب اختلاف کو کوئی فائدہ پہنچتا ہوا نظر نہیں آتا البتہ اس میں ملک کا نقصان ضرور ہوسکتا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں اپوزیشن پارٹیوں کو چاہیے کہ اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں اور حکومت کو اپنے پانچ سال پورے کرنے دیں تاکہ سیاسی بدحالی ختم ہو سکے اور وقت سے پہلے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ بھی ختم ہو ۔ حکومت کی کارگردگی کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں ۔ یہی جمہوریت کی اصل روح ہے ۔ اگر عوام حکومت کی کارگردگی سے مطمئین نہیں تو وہ اگلے الیکشن میں انہیں مسترد کر دیں گے ۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں کو خود بھی ووٹ کو عزت دینی چاہیے اور اگلے الیکشن تک عوام کے دئیے ہوئے مینڈیت کا احترام کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے تو اسکا آسان حل یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر انتخابی اصلاحات پر کام کریں اور سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کریں تاکہ آئیندہ آنے والے انتخابات صاف اور شفاف ہوسکیں ۔ کرونا وائرس پر ڈھٹائی سے کام لیکر اور عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر اپنے چھوٹے چھوٹے سیاسی فائدے اٹھانے کی کوشش کرنا ایک انتہائی خود غرضانہ عمل ہے ۔عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جان ومال کی خود حفاظت کریں اور سیاستدانوں کے ذاتی مفاد کے کھیل کی آگ میں ایندھن بننے سے بچیں۔