مکافات عمل کیا ہے؟

کچہری
میاں منیر احمد

بات تحریک انصاف کی ہو یا کسی دوسرے گروہ کی‘ کسی نجی ادارے کی ہو یا کسی پرائیویٹ لمٹڈ ادارے کی‘ کچھ فیصلوں کے نتائج انسان کے اپنے ہی گلے پڑ جاتے ہیں‘ ایک کہانی سن لیں‘ پھر نتیجہ بھی خود ہی آپ کے ذہن سے ہوتا ہوا ہاتھ میں آجائے گا‘ ایک بادشاہ تھا‘ اس اپنے لیے ایک محل تعمیر کرایا اور محلکی تعمیر میں نقص رہ گیا تو بادشاہ اپنا مقدمہ قاضی کے پاس لے گیا اور استدعا کی کہ لاکھوں اشرفیاں خرچ کرکے محل تعمیر کرایا ہے مگر ایک بہت بڑا نقص رہ گیا ہے لہذا عدالت ذمہ داروں کا تعین کرے اور داد رسی کی جائے‘ قاضی نے سب سے پہلے عمارت تعمیر کرنے والے شخص کو طلب کیا اور نقص کا سبب پوچھا‘ اس نے کہا کہ جس روشندان میں نقص کی بات کی جارہی ہے اس کی پیمائش جو بتائی گئی تھی وہی ہے‘ عدالت نے خود بھی جائزہ لیا اور بات سچ ثابت ہوئی لہذا قاضی نے اس شخص کو مقدمے سے بری کردیا‘ اب اس شخص کو طلب کیا گیا جس نے اس روشن دان کے لیے لکڑی کا فریم تیار کیا تھا‘ وہ عدالت میں حاضر ہوا تو مدعا بیان کیا کہ فریم پیمائش کے مطابق بنایا‘ اس کی بات بھی سچ ثابت ہوگئی‘ اب اس شخص کو طلب کیا گیا جس نے یہ فریم روشن دان میں فکس کیا‘ وہ شخص عدالت میں پیش ہوا اور اپنی غلطی تسلیم کی اور کہا کہ میری غلطی صرف اتنی ہے کہ جب یہ فریم روشن دان میں فکس کر رہا تھا اس وقت ایک عورت بازار سے گزر رہی تھی اور اس نے رزق برق کا شوخ لباس پہن رکھا تھا اور اس کے پاؤں کی پازیب کی جھنکار سے اس کا دھیان کام کی طرف نہیں رہا لہذا فریم درست طور پر روشن دان میں فکس نہیں ہوسکا‘ قاضی نے حکم دیا کہ اس عورت کو عدالت میں پیش کیا جائے جو اس طرح شوخ لباس پہن کر بازار میں گھوم پھر رہی تھی لہذا عدالت کے حکم پر اس عورت کو قاضی کے رو برو پیش کردیا گیا‘ قاضی نے پوچھا کہ وہ کیوں اس طرح کا شوخ لباس پہن پر بازار میں گھوم رہی تھی‘ اس عورت نے کہا کہ اس کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے بادشاہ کا حکم تھا کہ آج محل کی تعمیر مکمل ہونے جارہی ہے بس ایک روشن دان میں فریم فکس ہونا باقی ہے لہذا تم دربار میں آؤ تو اسے وہ اپنا محل دکھانے لے جائے گا‘ سو میں تو بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یہ لباس پہن کر بازار سے ہوتیہوئی بادشاہ کے دربار میں جارہی تھی‘ اس عورت کے جواب پر قاضی نے بادشاہ کو طلب کرلیا اور مقدمے کی تمام کارروائی اس کے سامنے دہرائی اور فیصلہ بادشاہ کے خلاف دے دیا کہ وہی اس عورت کو دیے گئے اپنے شاہی حکم کے باعث محل میں نقص رہ جانے کا ذمہ دار ہے‘ قاضی نے سب افراد بری کر دیے اور فیصلہ بادشہ کے خلاف سنا دیا‘ یہاں اس کہانی میں ایک سبق ہے‘ ہر وہ شخص جو کسی نقص کی ذمہداری کسی دوسرے پر ڈال رہا ہوتا ہے اگر وہ پختہ ذہن سے سوچے تو یہ نقص اس کا اپنا ہی پیدا کردہ ہوتا ہے‘ کامیاب انسان وہی ہوتا ہے کسی ناکامی کو تسلیم کرتا ہے اور کامیابی میں سب کو حصہ دار بناتا ہے‘ ہاتھی تو ہم سب نے ہی دیکھا ہے جب یہ غصے اور خوف کی حالت میں نہ بھاگ رہا ہو تو اس کی چال بڑی مستانہ ہوتی ہے اس کے ہچکولوں میں روانی اور تناسب کا ایسا باقاعدہ تواتر ہوتا ہے کہ سوار کو نیند آنا شروع ہوجاتی ہے‘ ہاتھی راجوں‘ مہا راجوں اور بادشاہوں کی سواری رہی ہے خواب غفلت میں شرسار رہنے کے لیے اس سے بہتر سواری ملنا بہت محال ہے ہاتھی پر بیٹھ کر زمین پر چلنے والی مخلوق واقعی بہت فاصلے پر نظر آتی ہے لہذا بادشاہوں کو یہ مخلوق بے مایہ‘ بے حد پست‘ اور نہائت بے حقیقت نظر آنے لگتی ہے‘ اس لیے عوام الناس کے مسائل کا علم نہیں ہوپاتا‘ اب اگر کوئی جو کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ہو‘ کسی ملک کا بادشاہ یا وزیر اعظم‘ یا کسی اادارے کا سربراہ‘ یہ سب ہاتھی کی سواری کے شگل میں مست ہیں‘ انہیں کوئی علم نہیں کہ کسی ملازم کے کیا مسائل ہیں اور عوام کس حال میں ہے؟ ان کے لیے اسی قاضی کی عدالت کی ضرورت ہے جس نے ایک بادشاہ کو قصور وار اور ذمہ دار قرار دے کر دیگر”ملزموں“ کو بری کردیا تھا‘ بس ایک وقت آئے گا جب سب بری ہوجائیں گے اور ہاتھی پر سوار لوگ سلاخوں کے پیچھے ہوں گے‘ یہ تمام حکمران جو عوام کے ووٹ سے آتے ہیں اور غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں‘ یہ سب اور وہ تمام لوگ جو کسی کی آشیرباد سے اداروں میں آتے ہیں اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے انہیں غلط‘ بے بنیاد اور جھوٹی اطلاعات پہنچا کر کسی غریب کو نقصان پہنچاتے ہیں ان سب کے لیے ایک ایسے قاضی کی ضرورت ہے جس نے عدالت میں اپنا مقدمہ لے جانے والے بادشاہ کو سزا دی‘ مکافات عمل کیا ہے؟ یہی کہ جو انسان کسی دوسرے کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود بھی اسی میں گرتا ہے

اپنا تبصرہ لکھیں