بزنس کمیونٹی کیلئے ایک اور بڑی کامیابی

صدر ایف پی سی سی آئی میاں انجم نثار کی پاکستان کی بزنس کمیونٹی کیلئے کیے جانے والے اقدامات میں ایک اور بڑی کامیابی ۔ وفاقی حکومت نے کارٹن یار کی درآمد پر پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی ۔ میاں انجم نثار صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف پی سی سی آئی) نے اس حوالے سے کہا ہے کہ کاٹن یارن کی درآمد پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی واپس لینے کے فیصلے سے پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کوصحیح وقت پر مدد ملے گی اور یہ فیصلہ ملک کے معاشی استحکام میں معاون ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی کا طویل عرصے سے یہ مشاہدہ ہے کہ خام مال کی محدود رسائی کے باعث ملک ٹیکسٹائل کے شعبے میں متنوع پیداور حاصل نہیں کرسکا اور نہ ہی  اپنی برآمدات کی مکمل صلاحیت استعمال کرسکا ہے اس مقصد کے لیے کاٹن یارن پر سے ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کیا جانا چاہیے تاکہ برآمد کنندگان متنوع مصنوعات کی پیداوار حاصل کرسکیں اور ان کو مسابقتی قیمتیں ملیں۔ پاکستان کو بڑے آرڈرز مل رہے ہیں مگر کپاس کی ملکی پیداوار ٹیکسٹائل کی صنعت کی کھپت پوری نہیں کرسکتی جبکہ ریگولیٹری ڈیوٹی اور پیچیدہ طریقہ کار کے باعث کپاس مسابقتی قیمتوں پر میسر نہیں ہے۔کوڈ 19 کی وبا اور پچھلے لاک ڈان نے صورتحال کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ کوڈ 19 کی حالیہ لہر بھی ٹیکسٹائل کی پیداورا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ پچھلے سال طوفانی بارشوں کی وجہ سے بھی کپاس کی فصلیں تباہ ہوئی تھیں۔ یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ کپاس کی پیداوار 6 سے 8 ملین گانٹھوں کے درمیان رہی جبکہ ملکی ٹیکسٹائل صنعت کی ضرورت 15سے 16 ملین گانٹھوں کی ہے۔پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن کے  یکم دسمبر 2020 تک کے اعداد و شمار کے مطابق  4.6 ملین گانٹھیں صنعت میں لائی گئیں جبکہ پچھلے سال اس کی مقدار  7.4 ملین گانٹھیں تھیں بالکل اسی طرح غیر فروخت شدہ اسٹاک 0.9 ملین گانٹھوں کا تھا جبکہ پچھلے سال غیر فروخت شدہ اسٹاک1.4 ملین تھا۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ کپاس کی فصل میں 13 فیصد کے قریب کمی ہوئی ہے جو کہ پاکستان کی بڑی نقد فصل ہے اور ملک کی ترقی اور معاشی خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے۔ کپاس کی پیداوار اور قابل کاشت رقبے میں متعدد اسباب کے باعث نمایاں کمی آئی ہے۔ جن میں کپاس کے کھیتوں پر طوفانی بارشوں کا برسنا، کووڈ 19 کے اثرات اور کسانوں کا کپاس کی کاشت چھوڑ کر گنے اور مکئی کی کاشت کی جانب راغب ہونا ہے اس سے کپاس کی پیداوار  15 سے 16 ملین گانٹھوں سے کم ہوکر  6 سے 8 ملین گانٹھیں رہ گئیں ہیں۔ بڑے اسباب میں فی ایکڑ کپاس کی کاشت میں کمی، کپاس کی کاشت کی کم ترجیح،  غیر مستند بیج اور کیڑے مار زہر وغیرہ  ہیں۔انہوں کہا کہ اس وقت کپاس کی پیداوارا ور ملکی ضروریات میں 5 ملین گانٹھوں کا خلا ہے، ملکی ٹیکسٹائل صنعت اس وجہ سے اپنی خام مال کی ضروریات پوری کرنے اور برآمدات میں پاکستان کے حصے کو یقینی بنانے کے لیے باہر سے خام کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ایف پی سی سی آئی نے اس قیمتی خام مال میں پاکستان کو خود کفیل بنانے کے لیے کپاس پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا تاکہ مسائل کو اجاگر کیا جاسکے اور موزوں حل ڈھونڈیں جاسکیں۔ سال 2015-16میں کپاس کا قابل کاشت رقبہ 2.9 ملین ایکڑتھا وہ گھٹ کر 2.3 ملین ایکڑ رہ گیا ہے یعنی ملک میں کپاس کے قابل کاشت رقبے میں 0.5 ملین ایکڑ کی کمی ہوئی ہے۔ ایف پی سی سی آئی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ کپاس اگانے والوں کو سہولیات اور ترغیبات دی جائیں اور ان کسانوں کو کپاس کی کاشت پر واپس  لایا جائے جو دوسرے منافع بخش متبادل اجناس اگا نے لگے ہیں۔میاں انجم نثار صدر ایف پی سی سی آئی نے مزید کہا کہ کپاس باہر سے درآمد کرنے سے ٹیکسٹائل سیکٹر کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں قیمتیں مستحکم نہیں رہیں۔ ٹیکسٹائل کی تمام صنعتوں اور ایف پی سی سی آئی کے ممبران کی جانب سے میاں انجم نثار صدر ایف پی سی سی آئی نے وزیر اعظم پاکستان  جناب عمران خان سے کاٹن یارن کی 5 فیصد ریگیولیٹری ڈیوٹی مناسب وقت پر ختم کرنے پر دلی تہنیت کا اظہار کیا ہے۔