قومی اسمبلی کی پوزیشن کیا ہو سکتی ہے


مان لیجیے الیکشن مئی میں نہیں ہوتے۔ وفاق اور سندھ بلوچستان کے ساتھ اکتوبر میں پنجاب و پختونخوا اسمبلیوں کے بھی انتخابات ہوتے ہیں تو کیا نتیجہ مختلف آئے گا؟ اس کا ابھی سے جائزہ لینا بھی ایک زاویہ نگاہ ہو سکتا ہے۔ تاہم عدالتی احکامات اور پی ٹی آئی کے پیدا کردہ ہیجان کے بیچ پھنسی پی ڈی ایم حکومت اس جانب دھیان نہیں دے پا رہی۔ قومی اسمبلی کی پوزیشن کیا ہو سکتی ہے؟

سندھ

266 حلقوں میں سے سندھ 61 کا احاطہ کرتا ہے۔ ان میں سے کراچی کی 21، حیدر آباد سمیت اندرون سندھ کی 40 نشستیں۔ آج کی معروضی حقیقت یہ دکھتی ہے کہ سندھ کا قلعہ پیپلز پارٹی نے مزید مضبوط کیا ہے۔ مراد علی شاہ نے دو کام کیے ہیں۔ ایک تو بڑے منصوبے لگائے ہیں، یہ الگ بات اردو میڈیم میڈیا کے روایتی تعصب اور پی پی کی اپنی ناقص میڈیا منیجمنٹ کے طفیل ان کی تشہیر نہیں ہو پا رہی۔ دوسرا یہ کہ ہزاروں سرکاری ملازمتیں تخلیق کرتے ہوئے اب کی بار سندھ پبلک سروس کمیشن، آئی بی سکھر ٹیسٹنگ سروس وغیرہ کے ذریعے بھرتیاں کرائی ہیں۔

صرف ٹیچرز کی 55 ہزار آسانیاں مشتہر کی گئیں جن میں سے بہت سی خالی گئیں۔ دوسرا یہ کہ سندھ میں اب تک پی پی کا کوئی متبادل نہیں آیا۔ گزشتہ دنوں افطار پہ ایک سندھی صحافی کے سامنے یہی مدعا رکھا تو ان کا ماننا تھا کہ سندھ اپنی سرشت میں سیکولر فکر کا حامل ہے۔ عمران خان کا مذہبی ٹچ کراچی کے یو پی، بہار والوں میں تو کاریگر ہو سکتا ہے لیکن سندھی سیاست میں مذہب کا استعمال پسند نہیں کرتا۔ یوں عمران خان کی لہر سے کم از کم سندھ محفوظ ہے۔

سو بعید نہیں پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر اندرون سندھ کے 40 میں سے 35 حلقوں پہ اپنی پکڑ برقرار رکھے۔ کراچی میں ملیر کے 4 حلقوں کے علاوہ لیاری اور کیماڑی کے حلقے پیپلز پارٹی کے پاس جا سکتے ہیں۔ باقی کراچی پہ عمران خان کا سحر ابھی باقی ہے۔ کتنا دلچسپ بھی مگر مضحکہ خیز سین ہے کہ پچھلے الیکشن میں کراچی سے پی ٹی آئی کو جتانے کے لیے ایم کیو ایم کے بخیے ادھیڑ دیے گئے تھے۔ اب کی بار پی ٹی آئی کو قابو کرنے کے لیے پھر وہی سیاسی خس و خاشاک اکٹھے کیے جا رہے۔ مگر الطاف حسین کے بنا ایم کیو ایم کا نشاۃ الثانیہ ممکن نہیں دکھتا۔

خیبر پختونخوا

قومی اسمبلی کی سابق فاٹا لگا کے 45 سیٹیں۔ ہزارہ بیلٹ میں کسی زمانے میں نون لیگ کا راج ہوا کرتا تھا۔ مگر اب پی ٹی آئی بڑا چیلنج ہے۔ پیپلز پارٹی کا یہاں سے خاتمہ بالا آخر ہو چکا ہے۔ پشاور، نوشہرہ، چار سدہ، مردان، صوابی، بنوں، کوہاٹ، ہنگو خالص پختون علاقے ہیں۔ اس ایریا میں پختون قوم پرست عوامی نیشنل پارٹی کا انتخابی احیا مشکل سے مشکل تر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ میں مولانا کو عمران خان کا چیلنج بدستور موجود ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں ایک زمانے میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا ٹاکرا چلتا ہے۔ یہاں بھی پی ٹی آئی کی مقبولیت ہے۔ سابق فاٹا کی تازہ تر سیاسی صورت حال کیا ہے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ الغرض کے پی کے میں تاحال پی ٹی آئی ایک طرف اور باقی سب جماعتیں اپنے اپنے بیلٹ سے قسمت آزمائیں گی۔

بلوچستان

17 ا۔ یہ صوبہ عملاً قومی سیاسی دھارے میں اس طرح نہیں آ سکا جیسا ایک وفاق کا تقاضا ہے۔ بہرحال بلوچستان سے تینوں وفاقی پارٹیوں کو اتنی سیٹیں نہیں آتیں جن کی بنیاد پر حکومت بنانے کی تعداد پہ کوئی واضح فرق پڑے۔

پنجاب

تخت اسلام آباد کی اصل جنگ لڑی جانی ہے۔ اسلام آباد ملا کے پنجاب کے ٹوٹل 144 حلقے۔

اصوبہ سندھ سے پیپلز پارٹی کو 42 سے 44 حلقے آ سکتے ہیں۔ اسی طرح کے پی کے ’کے 45 میں سے 30 سے 35 سیٹیں پی ٹی آئی کی فرض کر لیں۔ اب یہ تعداد ذہن میں رکھتے ہوئے پنجاب کا حساب کتاب لگائیں تو معاملہ ذرا آسان ہو جائے۔ پنجاب کی 144 میں سے چلیں 24 حلقے اوپن رکھیں۔ باقی 120 میں سے نون لیگ اور پی ٹی آئی کون اکثریت لے گی؟ یہ ہے وہ سوال جو آنے والے وفاق کا پتا بتائے گا، چاہے پنجاب اسمبلی کے الیکشن مئی میں ہوں یا اکتوبر میں، نون لیگ پنجاب سے 70 سے زائد قومی اسمبلی کی سیٹیں لیتی ہیں تو وفاق پی ڈی ایم کا۔ اگر پی ٹی آئی پنجاب میں اکثریت مارتی ہے تو حکومت پی ٹی آئی کی۔