پاک بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ

پاکستان کے وزیر خارجہ گیارہ برس کے طویل وقفے کے بعد بھارت گئے ہیں۔ وہاں مصروفیات پر نگاہ رکھتے ہوئے معلوم کرنا چاہیے تھا کہ پاک-بھارت تعلقات میں مذکورہ کانفرنس کی بدولت کوئی تاریخی ”بریک تھرو“ ہوسکتا ہے یا نہیں
پاک بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ پاکستان کے ریاستی اداروں میں بھارتی امور پر نگاہ رکھنے والوں سے رابطے بڑھائیں۔جدید ترین ذرائع مواصلات کی بدولت مختلف ممالک کے سربراہان ایک دوسرے سے براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔ان کے مابین جو معاملات طے ہوتے ہیں بسااوقات ”سفارت کاروں“ تک بھی ہماری طرح ”اطلاع“ کی صورت پہنچتے ہیں۔ اس تناظر میں واقعہ یہ بھی ہوا کہ نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں جب نریندر مودی نے ”اچانک“ کابل سے لاہور اترنے کا فیصلہ کیا تو نواز شریف ہی نہیں بلکہ ان دنوں اسلام آباد میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر بھی اس فیصلے سے قطعاََ لاعلم تھے۔بھارتی وزیر اعظم نے نواز شریف سے براہ راست فون پر گفتگو کے بعد لاہور آنے کا بندوست کرلیا۔ مودی کی لاہور آمد طے ہوگئی تو بھارتی ہائی کمشنر کو فی الفور اس شہر پہنچنے کا حکم صادر ہوا۔ موٹروے پر سفر کرتے ہوئے موصوف کی گاڑی نے کئی بار ”120کلومیٹر“والی حد کی خلاف ورزی کی۔پاکستان کا وزیرخارجہ گیارہ برس کے بعد بھارت کسی ”باہمی“ بندوست کی بدولت نہیں گیا ہے۔گوا میں ایک بین المملکتی تنظیم کا جلاس ہے۔اس تنظیم کا بانی اور روح رواں ہمارا عزیز ترین دوست عوامی جمہوریہ چین ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ اگر اس تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے بھارت کے ساتھ باہمی تنازعات کی بنیاد پر گوا نہ جاتے تو ہمارے یار کو ”سبکی“ محسوس ہوتی۔ بنیادی طورپر پاکستانی وزیر خارجہ گوا گئے ہیں۔ان کے دورے سے بریک تھرو کی توقع رکھنا زیادتی ہوگی۔ بھارت میں آئندہ برس کے مئی میں عام انتخاب ہونا ہیں۔ مجھے توقع نہیں کہ تیسری بار اپنے ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے لئے نریندر مودی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول کے مطابق لانے کی ضرورت محسوس کریں گے۔

بھارت کو مگر اس برس اپنے ہاں دنیا کے خوش حال ترین ممالک پر مشتمل تنظیم -G-20-کا اجلاس بھی منعقد کر ناہے۔اس حوالے سے چند تقاریب کے لئے بہت سوچ بچار کے بعد سری نگر کو چُنا گیا ہے۔آرٹیکل 370کی تنسیخ کے بعد دو حصوں میں بانٹے اور منتخب صوبائی حکومت کے بجائے دلی سے چلائے حکومتی بندوست والے کشمیر کے دارالحکومت میں -G-20-کا اجلاس پاکستان سے چند ”وعدوں“ کی گنجائش پیدا کرسکتا ہے