ڈاکٹر صلاح الدین مینگل(صدارتی تمغہ امتیاز)

ڈاکٹر صلاح الدین مینگل(صدارتی تمغہ امتیاز)


قومی اہمیت کے اہداف


پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے‘ جہاں ایک آئین کے تابع جمہوری نظام ہے مملکت کو اسلامی اور نظریاتی بنانے کا ایک منصوبہ آئین میں دیا گیا ہے‘ جس کی مکمل وضاحت آرٹیکل اکتیس میں درج ہے‘ اسی سبب حکومت کی قومی اور ملی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے انتظامی اقدامات کرے جس سے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کا فروغ عمل میں آئے اور ہر مسلمان شہری دین کے مطابق اپنی زندگی گزارنے میں سہل محسوس کرے‘ اور ملک میں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگ بھی اسانے کے ساتھ زندگی گزار سکیں‘ لیکن کسی بھی حکومت نے آج تک اس جانب توجہ نہیں دی توجہ کی بات یہ ہے کہ ایک مسلمان کی صبح کاآغاز فجر کی نماز سے ہوتا ہے‘ کسی بھی شرعی عذر کے بغیر یہ لازم ہے کہ نماز باجماعت ادا کی جائے بہتر ہوتا کہ حکومت کوئی ایسا نظام وضح کرے کہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد میں تلاوہ قرآن مجید کرکے مسلمان شہری اپنے گھر واپس آئے‘ ناشتہ کرے اور اپنی دکان‘ دفتر یا جو بھی اس کا کاروبار ہو اس جانب بڑھ جائے‘ بچے سکول چلے جائیں‘ اور دوپہر کو واپس آئیں‘ آرام کریں اور قیولہ کے بعد مسجد میں قرآن کی ناظرہ تعلیم کے لیے اپنے استاد کے یاں پیش ہوجائیں سوائے ہوٹلز کے‘ عصر کی نماز تک تمام دفاتر اور مغرب کی نماز تک تمام بازار بند ہوجائیں اور عشاء کی نماز کے بعد ہوٹل بھی بند کر دیے جائیں تاکہ اگلے روز سب لوگ اپنے وقت پر دن کا آغاز کرسکیں‘ یہ معمول بنانا اور اسے قانون کے تابع بنانا یا مناسب بندوبست کے ذریعے ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘ اس سے شہریوں کی صحت بھی بہتر ہوگی‘ بجلی کی بچت بھی ہوگی اور اسٹریٹ کرائم جیسے واقعات میں بھی کمی آجائے گی‘ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بازار آدھا دن گزر جانے کے بعد کھلتے ہیں اور رات دیر تک کھلے رہتے ہیں‘ فطرت کے اصولوں کے منافی یہ ماحول ملک میں سماجی لحاظ سے برائیاں پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مضبوط معیشت لازمی ہے مضبوط معیشت اسی وقت ہوگی کہ جب شہری صحت مند ہوں گے‘ تعلیم یافتہ ہوں گے اور اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے تعمیری کاموں میں صرف کریں گے یہ ماحول فراہم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے اگر کسی بھی ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوگی تو اسے ہر وقت نادھندگی کا خوف لاحق رہے گا بلکہ یہ خطرے کے نشان سے بات آگے بڑھ جائے گی عالمی ساہو کار تو یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان ان کا دست نگر بنا رہے اور کبھی بھی آزاد خود مختار مملکت نہ بن سکے عالمی مالیاتی ادارہ ممالک کو قرض دیتا ہے جنہیں نادھندگی کا خطرہ ہوتا ہے اگر ہم ان سے قرض لے کر اس قرض کو ضائع کردیں اور کسی تعمیری منصوبوں میں صرف نہ کریں تو یہ ہمارے لیے وبال جان بن جائے گا اس وقت یہی صورت حال ہمیں درپیش ہے اور اسی وجہ سے یہ عالمی مالیاتی ادارے ہمیں سخت شرائط کے ساتھ قرض دیتے ہیں اور ڈکٹیٹ کراتے ہیں‘ اسی وجہ سے حکومتیں گیس‘ بجلی‘ پیٹرولیم اور دیگر کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیے جارہی ہیں یہ صورت حال ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کا مسلسل غلام بنائے جارہی ہے اور ہم قسطیں ادا کرتے کرتے ہانپ چکے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے اندر مایوسی بڑھ رہی ہے اور نوجوان نسل روزگار کے لیے بیرون ملک جا رہی ہے ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں اور اسلام تو ہمیں سادگی سکھاتا ہے ہمیں بے جا اصراف سے منع کرتا ہے یہ حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے کہ ہر شہری سادگی اختیار کرے اور بوجھ نہ بننے والی زندگی گزارے‘ یہ سادگی اس وقت پیدا ہوگی کہ جب ہمیں اللہ کا خوف دل میں زندہ رہے گا اسی خوف کے سبب ہم ہر وہ کام کریں گے جس میں اللہ کی خوشنودی ہوگی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہر حکومت پر لازم ہے کہ وہ آئین کے مطابق عمل کرکے ہر وہ کام کرے جس سے معاشرے میں عدل‘ قانون کے تابع زندگی ماحول بن جائے‘ بلاشبہ ہماری قوم‘ ہمارے نوجوان بہت با صلاحیت ہیں‘ اگر ہم سیاست دان پیدا کر سکتے ہیں تو ہم اچھے کھلاڑی‘ سائنس دان‘ ماہر طب‘ ماہر تعلیم اور بہترین معیشت دان بھی پیدا کر سکتے ہیں
بقول شاعر
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
کہ نہ ہو جس کو خیال اپ اپنی حالت بدلنے کا
ہمارے معاشرے میں نمود و نمائش کی جاتی ہے‘ امراء کو دعوت دی جاتی ہے‘ فوٹو سیشنز ہوتے ہیں‘ انواع قسم کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں‘ شادیوں کی تقریبات میں بے دریغ فضول خرچی کی جاتی ہے‘ اصراف سے منع کیا گیا ہے اسلام میں اس کی سخت مانعت کی گئی ہے بہتر یہ ہوگا کہ ایسا نظام وضح کیا جائے کہ شادی کی تقریب سادگی سے ہو‘ دن کی روشنی میں کی جائے اور مہمانوں کو سادہ کھانا پیش کیا جائے‘ شام سے پہلے پہلے ولیمہ کی تقریب مکمل کرلی جائے اور عزت و احترام کے ساتھ بارات واپس رخصت کردی جائے‘ جس طرح کھانا شادیوں میں ضائع کیا جاتا ہے یہ کفران نعمت بھی ہے اور آداب کے بھی خلاف ہے اور رزق کی توہین بھی ہے‘ رزق اللہ کی نعمت ہے اس کا لحاظ کرنا چاہیے ہماری کاروباری اشرافیہ‘ سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی اس میں پیش پیش نظر آتی ہے‘ معاشرے میں تفریق ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ کسی بھی سرکاری ملازم کو‘ خواہ اس کا تعلق عدلیہ سے ہو یا دفاعی فورسز سے‘ یا واپڈا سمیت کسی بھی حکومتی محکمہ سے‘ ان کے لیے بجلی‘ گیس اور ٹیلی فون سمیت پیٹرول کی غیر ضروری سہولتیں نہیں ہونی چاہیے‘ وہ تمام سرکاری ادارے جن کی ذمہ داری آپریشنل ہے‘ انہیں ملکی سلامتی کے لیے ہر وسائل مہیا کیے جائیں‘ تنخواہوں کے سکیل پر نظر ثانی ہونی چاہیے‘ ذیادہ سے ذیادہ تنخواہ پانچ لاکھ ہونی چاہیے‘ اور سرکاری ملازمین کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی گاڑیوں کی مرمت بھی اپنے وسائل سے کریں اگر یہ اصول اپنا لیا جائے تو ہمارے اخراجات میں کم و بیش80 فی صد تک کی بچت متوقع ہے اسی طرح پینشن کے نظام پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے‘ جب تک کوئی سرکاری ملازم ہے اسے تنخواہ دی جائے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی پینشن پر اس کے خاندان کا حق ختم کرنے کی ضرورت ہے‘ پے اینڈ پینشن کمیٹی کو اس جانب ضرور توجہ دینی چاہیے‘ اساتذہ‘ ڈاکٹرز کی ملازمت لازمی ملازمت کی جائے تاکہ یہاں ان شعبوں میں ہڑتالوں جیسے قبیح فعل کا خاتمہ ہوسکے اس عمل سے ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کا اور ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج کا ماحول بہتر ہوجائے گا کسی بھی ملک کی معیشت کا دارو مدار اس کی بچت پر ہوتا ہے ہماری درآمدات اور برآمدات میں بہت فرق ہے یہ فرق ہماری معیشت کو کھائے جارہا ہے ہمیں ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ ہماری برآمدات بڑھ جائیں اور درآمدات کم ہوجائیں ہمیں یہ بھی چاہیے کہ پر تعیش اشیاء کی درآمدات کی حوصہ شکنی کی جائے تاکہ توازن کو بہتر بنایا جاسکے ہم ایک مقروض ملک ہیں اور ہمیں مہنگی گاڑیوں‘ پر تعیش اشیاء اور تزئین و آرائش کی اشیاء کی کیا ضرورت ہے‘ ہمارا ایک ہی ہدف ہونا چاہیے کہ ہم نے اسلام کے سنہرے اصولوں کی بنیاد پر اپنی سماجی‘ سیاسی‘ معاشی قومی زندگی استوار کرنی ہے