ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ

بجٹ میں متوقع طور پر 1100 ارب روپے کا سالانہ ترقیاتی پروگرام رکھا ہے جوکہ حکومت کو سیاسی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ صوبائی اور وفاقی ترقیاتی پروگرام میں اراکین اسمبلی کی مشاورت سے ان کے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں یا حکومت بڑی سڑکوں، پلوں، نہروں کے پکا کرنے، اسپتال اور اسکولوں کی تعمیر کے لیے فنڈز سیاسی بنیادوں پر جاری کرتی ہے۔ مگر ان پروگرامز کی افادیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔
حکومت کو ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ بنیادی نوعیت کے ترقیاتی کاموں کو وفاقی یا صوبائی حکومت کے بجائے مقامی حکومت کے تحت کیا جائے۔ جس سے مقامی سطح پر عوامی شمولیت اور عوامی ذمہ داری کے علاوہ فنڈز کے درست استعمال اور منصوبے کی معیار اور معاہدے کے مطابق تکمیل کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

حکومت کے سابق مشیر، سابق وفاقی وزیر اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے کہ ’حقیقی منصوبہ بندی اضلاع میں ہوسکتی ہے، کراچی، لاہور اسلام آباد کوئٹہ، پشاور کے دفاتر میں بیٹھ کر نہیں۔ مگر لگتا یہی ہے کہ حکومت اس ترقیاتی بجٹ کو زیادہ سے زیادہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہے‘۔

ٹیکس اور ایف بی آر ریونیو
حکومت کے لیے ٹیکس نظام اور ٹیکس مشینری بہت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ سال 2005ء سے مسلسل اصلاحات، تربیت اور مراعات کے باوجود پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کا نظام اپنی جڑ مضبوط نہیں کرسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پہلے دن سے ہی قرضہ لینا شروع کردیتی ہیں اور آخری دن تک قرض لیتی رہتی ہے۔

ٹیکس چونکہ فیصد میں لگایا جاتا ہے۔ اس لیے افراطِ زر اور مہنگائی بڑھنے سے حکومت کے ٹیکس میں خود بہ خود اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر افراط زر 39 فیصد ہے تو ٹیکسوں کی وصولی خود بہ خود 39 فیصد تک بڑھ جانی چاہیے مگر ایف بی آر کی کارکردگی افراط زر کے باوجود مایوس کُن رہی اور وہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو گزشتہ مالی سال 2023ء کے لیے طے کردہ 66 کھرب 40 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنے بھی ناکام رہا۔ ایف بی آر نے 62 کھرب 10 ارب روپے وصول کیے جوکہ ہدف سے 430 ارب روپے کم ہیں۔

ایف بی آر ٹیکس ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا
حکومت گزشتہ 15 سال سے ٹیکس بیس بڑھانے کی بات کرتی آرہی ہے مگر انہیں لوگوں پر ٹیکس لگا پاتی ہے جوکہ پہلے سے ٹیکس ادا کررہے ہوتے ہیں۔ سال 16-2015ء میں وِد ہولڈنگ ٹیکس، بینک لین دین پر ٹیکس، اسٹاک مارکیٹ پر ٹیکس اور نہ جانے کس کس طرح سے ٹیکس لگائے گئے۔ لیکن وہ فرد جو ملک میں دستاویزی کاروبار کرتا ہے اور حکومت کو ٹیکس ریٹرن جمع بھی کرواتا ہے، ان تمام عوامل سے اس پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا ہے جبکہ حکومت نے ایک طبقہ نان فائلر کا بھی متعارف کروایا ہے جوکہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرتا اور اس سے کسی قسم کی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جاتی ہے۔

سیلز ٹیکس کی چوری روکنے کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف ہوا۔ اس کو بڑی اور اچھی کمپنیوں نے تو استعمال کیا اور انہیں مکمل ٹیکس ادا کرنا پڑا جبکہ ان کے مد مقابل چھوٹی کمپنیوں کو ٹیکس سے چھوٹ مل گئی۔

فروری 2023ء میں تمباکو پر 150 فیصد ایف ای ڈی بڑھائی گئی جس کے بعد کمپنیوں نے ایف ای ڈی کو لاگو کیا۔ جبکہ باقی چھوٹی کمپنیاں عدالت میں گئیں۔ چھوٹی کمپنیوں کے سیگریٹ سستی ہونے کی وجہ سے ان کی فروخت بڑھ گئی اور بڑی کمپنیوں کی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ حکومت کی ٹیکس وصولی کم ہوگئی۔ اسی طرح جوسز پر ایف ای ڈی بڑھائی گئی تو ان کی فروخت کم ہوئی، حکومتی ٹیکس بھی کم ہوا اور غیر دستاویزی اور غیر معیاری مارکیٹ بڑھ گئی۔ یہی غیر متوازن ٹیکس پالیسی ہے جس کی وجہ سے ملک میں غیر دستاویزی صنعت بڑھ رہی ہے اور دستاویزی صنعت سکڑ رہی ہے۔

اور اب لوگ بینکوں کے بجائے نقد لین دین کررہے ہیں تاکہ ٹیکس سے بچت ہوسکے یہی وجہ ہے کہ مالی سال 2015ء میں زیرِ گردش سرمایہ 30 فیصد تھا جوکہ اب بڑھ کر 45 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے حوالے سے وکلا، ڈاکٹرز، ریٹیلرز اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس عائد ہونا چاہیے۔

مفتاح اسمعٰیل کہتے ہیں کہ جائیداد پر ٹیکس جمع ہونا چاہیے۔ بھارت کا شہر پونا پورے صوبہ پنجاب سے زیادہ پراپرٹی ٹیکس جمع کرتا ہے۔ ہمیں زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس لگانا چاہیے۔ ریٹیل سکیٹر ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ ملک بھر میں 22 لاکھ دکانوں میں سے صرف 30 ہزار ٹیکس دیتی ہیں۔

حکومت کی ٹیکس پالیسی کی وجہ سے ملک میں غیر دستاویزی صنعت بڑھ رہی ہے
جائیداد کی خرید و فروخت کے حوالے سے یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ بڑی بڑی نجی رہائشی سوسائٹیز کے خرید وفروخت، لین دین کے نظام کو ایف بی آر سے اسی طرح منسلک کیا جائے جس طرح بڑی ریٹیل مارکیٹس کو منسلک کیا گیا ہے۔ کوشش کی جائے کہ جائیداد کی ڈی سی، ایف بی آر ویلیو کو ختم کر کے حقیقی ویلیو پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس کے ساتھ سال 19-2018ء کے بجٹ میں تجویز کردہ بائی بیک بیورو بنانے یا بائی بیک اتھارٹی قائم کی جائے تاکہ کم قیمت پر جائیداد کی خرید و فروخت کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

اب چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لیے کسی بھی جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے ایک ایکس چینج قائم کیا جائے جس میں جائیداد کو رجسٹر کروانے کے بعد اس کی بولی لگا کر نیلامی کی جائے اور زیادہ بولی دینے والے کو جائیداد فروخت کردی جائے۔

اس کے علاوہ حکومت فائلر اور نان فائلر کی تمیز کو ختم کرتے ہوئے جائیداد اور گاڑی خریدنے کی اجازت انہیں پاکستانیوں کو دے گی جو کہ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔

ذرائع ایف بی آر کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں روز مرہ استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رکھا جائے گا۔ بچوں کے درآمدی دودھ، ڈبوں میں بند گوشت، مرغی اور مچھلی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

جی ڈی پی
ڈالر کی قلت نے پاکستانی معیشت کو بڑا دھچکا دیا ہے۔ رواں مالی سال مجموعی مقامی پیداوار صرف 0.29 فیصد رہی جبکہ حکومت کا ہدف 5 فیصد تھا۔ اس کی بڑی وجہ صنعت، خدمات اور زراعت کے شعبے کی مایوس کن کارکردگی ہے۔ بڑی صنعتوں سمیت ہول سیل اور ریٹیل نے ترقی معکوس دیکھی۔

زرمبادلہ کی قلت آئندہ مالی سال بھی معیشت کو متاثر کرنے والی ہے۔ جس کی وجہ سے آئندہ مالی سال جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کا امکان ہے۔

آئندہ مالی سال جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کا امکان ہے
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے 5 بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ چین، بھارت، انڈونشیا، امریکا کے بعد پاکستان آبادی کا بڑا حصہ ہے۔ دنیا کی آبادی کا 3 فیصد پاکستان میں ہے۔ دنیا کے جی ڈی پی میں ان 5 ممالک کا حصہ 45 فیصد ہے اور اگر آبادی کے لحاظ سے 10 بڑے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ان کی عالمی جی ڈی پی 60 فیصد سے زائد ہے۔ مگر پاکستان کا حصہ اس میں صرف 0.4 فیصد ہے۔

سیلاب کی تباہ کاریاں، روس یوکرین جنگ، سیاسی عدم استحکام اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری، رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کی تباہی میں ان عوامل کا سب سے بڑا ہاتھ رہا۔

فی کس آمدنی
بجٹ میں فی کس آمدنی بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے
رواں مالی سال حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا فی کس آمدنی میں کمی ہے۔ رواں مالی سال فی کس سالانہ آمدن ایک ہزار 568 ڈالرز رہی جوکہ گزشتہ مالی سال میں ایک ہزار 766 ڈالرز تھی۔ اس طرح فی کس آمدنی میں 198 ڈالر کی نمایاں کمی ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ صنعتوں کی بندش، بےروزگاری میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔ حکومت کو آئندہ مالی سال کے لیے فی کس آمدن بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام
ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اپنے ووٹ بینک کو بچانے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے ایک کھلی سبسڈی کی اسکیم کے بجائے پسماندہ طبقات کو سبسڈی فراہم کرنے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ توقع کی جارہی ہے کہ حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی اور عددی اعتبار سے اضافہ کرے گی۔

حکومت ووٹ بینک بچانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ میں مالی اعتبار سے اضافہ کرے گی
اس مد میں رواں بجٹ میں اضافہ کیا گیا اور اس کو 250 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کردیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ اس میں مزید 100 ارب روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں توسیع کی مفتاح اسمعٰیل اور نسیم بیگ بھی تائید کرتے ہیں۔

یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں توسیع شہری علاقوں کے پسماندہ طبقات کے لیے کی جاتی ہے یا دیہی علاقوں کے لیے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دیہی سے زیادہ شہری علاقوں میں غربت بڑھی ہے۔ معاشی سست روی، صنعتوں اور کاروبار کی بندش کی وجہ سے شہری محنت کش بے روزگار ہوئے ہیں جبکہ افراطِ زر بھی شہروں میں رہنے والے غریبوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔