علاقائی معاملات سے آگے نکل کر دیکھیں تو چین اور امریکا کی براہِ راست تجارتی محاذ آرائی اس وقت سفارتی محاذ آرائی سے آگے نکلتے ہوئے کسی بھی وقت عسکری کشیدگی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ امریکا کی جانب سے تجارتی عالمگیریت کے برخلاف چین پر پابندیاں عائد کرنے سے ایک کشیدہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح روس اور یوکرین جنگ نے یورپ میں سلامتی اور ایندھن کے ایسے مسائل کھڑے کردیے ہیں جس کے اثرات عالمی منڈی اور خصوصاً ہمارے خطے پر بھی پڑ رہے ہیں۔
ایسے میں پاکستان کو اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے اضافی بجٹ کے علاوہ ایسی معاشی پالیسی بھی دینا ہوں گی جوکہ چین اور امریکی بلاکس میں توازن کو قائم رکھ سکے۔ پاکستان میں متعدد ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جس سے امریکی مفادات کو ٹھیس لگتی محسوس ہورہی ہے۔ پاکستان کا روس سے ایندھن کی خریداری کا عمل شروع کرنے کے علاوہ روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر، یعنی مال کے بدلے مال کی تجارت شروع کرنا اور ایران کے ساتھ سرحدی مارکیٹ کا قیام اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ ماہرین اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ بجٹ میں اس حوالے سے قانون سازی کے لیے تجاویز فنانس بل کا حصہ ہوسکتی ہیں۔
کاروباری اور کارپوریٹ سیکٹر کی توقعات
پاکستان میں نجی کاروبار کو سبسڈی فراہم کرنا یا انہیں مارکیٹ کی رسائی کا تحفظ فراہم کرنا ایک عام سی بات ہے۔ پاکستان میں ہر صنعت جیسے ٹیکسٹائل، فولاد سازی، آٹوموبیل، ادویات سازی، موبائل فونز وغیرہ کو 200 فیصد تک مالیاتی یا غیرمالیاتی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جس سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے۔ کیا صنعتوں اور کاروبار کو دیا جانے والا تحفظ برقرار رہےگا یا پھر اس میں کوئی تبدیلی ہوگی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عوام سے زیادہ اشرافیہ یعنی تاجر، صنعت کار اور بزنس کمیونٹی تلاش کررہی ہے۔
ٹیکس کے اثرات کارپوریٹ سیکٹر کے مالیاتی نتائج کو متاثر کررہے ہیں
پاکستان کی سب سے بڑی برآمدات ٹیکسٹائل کی ہے۔ اس صنعت سمیت 5 برآمدی صنعتوں کو ہر حکومت نے بڑی مراعات سے نوازا ہے۔ برآمدی شعبے کے لیے اسٹیٹ بینک کے سستے قرضوں کی اسکیم ایکسپورٹ ری فنانس تو ہر وقت ہی بزنس کمیونٹی کو دستیاب رہی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی فریٹ سبسڈی، کبھی سستی بجلی اور گیس، اور سب سے بڑھ کر بڑے کارپوریٹ ادارے جنہوں نے مقامی طلب پورا کرنے کے لیے صنعت لگائی ہے، انہیں دیا جانے والا تحفظ ہے۔
عارف حبیب گروپ سے وابستہ سینیئر معاشی ماہر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں یہ بجٹ انتہائی مشکل سیاسی اور معاشی حالات میں آرہا ہے۔ آئندہ اکتوبر میں پی ڈی ایم جماعتوں کو الیکشن کا سامنا ہے جس کے لیے پی ڈی ایم جماعتوں کو تیاری کرنا ہوگی۔ حکومت کا خسارہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے اور اس وقت کارپوریٹ سیکٹر یہ سمجھتا ہے کہ مزید ٹیکس لگنے کے امکانات ہیں۔
’یوں لگتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس کو جاری رکھیں گے۔ مگر اس ٹیکس کے اثرات کارپوریٹ سیکٹر کے مالیاتی نتائج کو متاثر کررہے ہیں۔ لیکن بینکوں اور آئل و گیس کمپنیوں کی آمدنی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کو بلند ترین سطح پر افراطِ زر کی وجہ سے شرح سود میں اضافے نے بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے جبکہ آئل و گیس کمپنیوں کو روپے کی قدر میں کمی کا فائدہ ہوا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ حکومت ان دونوں شعبوں پر خصوصی ٹیکس عائد کرسکتی ہے۔
ڈیفالٹ کے خدشات اور آئی ایم ایف پروگرام
عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف، پاکستان اور دنیا بھر میں ایک نہایت ہی غیرمقبول ادارہ ہے۔ مگر اس کے بغیر حکومتوں کا گزارا بھی نہیں۔ آئی ایم ایف معاشی مشکلات کے شکار ممالک کی معیشت میں اصلاحات کی کڑی شرائط پر قرض دیتا ہے اور یہی عوامی اور سیاسی سطح پر اس کی غیرمقبولیت کی وجہ ہے۔ کوئی سیاسی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ اس کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض لینا پڑے مگر کیا کریں جب بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ نہ ہو تو آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔
پاکستان اس وقت آئی ایم ایف سے 23 پروگرام لے چکا ہے اور 2 کے علاوہ کسی بھی پروگرام کی تکمیل نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کمزور سیاسی حکومتیں مشکل معاشی فیصلوں کا بوجھ اٹھانے سے ہمیشہ گھبراتی رہی ہیں۔
مگر موجودہ معاشی ٹیم جس کی قیادت وزیرِ خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار کر رہے ہیں، اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ ان کے مطابق گھانا اور سری لنکا سے پاکستان کا موازنہ گمراہ کن ہے۔ پاکستان نے آئندہ مالی سال 24-2023ء میں تقریباً 25 ارب ڈالر کے قرضوں کو واپس کرنا ہے۔ جس میں تجارتی قرضوں کا حجم 10 فیصد ہے۔ باقی 90 فیصد عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے ساتھ دوطرفہ قرض ہیں۔
آئی ایم ایف کے بغیر حکومتوں کا گزارا مشکل ہے
پاکستان کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے کڑی شرائط کو پورا کیا گیا ہے۔ جس میں مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود میں ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔ حکومت کے مالیاتی حالات بہتر بنانے کے لیے مالی سال کے وسط میں نئے ٹیکس عائد کیے گئے، پیٹرولیم لیوی، اور دیگر شرائط عمل کیا گیا ہے۔
جیساکہ آئی ایم ایف کے سخت پروگرام میں تعطل کی وجہ سے پاکستان کو اس وقت بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اندرونی معیشت کے بجائے بیرونی وسائل کی قلت ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور طویل عرصے سے انتہائی کم ترین سطح پر موجود ہیں۔
پاکستان نے اس سال جون تک اصل زر اور سود کی مد میں 4.1 ارب ڈالرز کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ جس کے بعد مالی سال کے آغاز پر ملکی سرکاری زرمبادلہ ذخائر چین کے قرضوں کے رول اوور کے ساتھ صرف 3 ارب ڈالرز رہ جائیں گے۔ اور متوقع طور پر ستمبر میں یہ ڈیڑھ ارب ڈالر یا اس سے کم ہوں گے۔ اسی بنیاد پر مفتاح اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام نہیں لیا تو اس مالی سال میں نہیں تو آئندہ مالی سال میں اکتوبر یا نومبر میں ملک ڈیفالٹ ہوجائے گا۔
اس وقت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان فنانسنگ گیپ پر معاملات اٹکے ہوئے ہیں۔ پروگرام کی تکمیل کے لیے پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان بات چیت بھی ہوئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کردی ہیں، امید ہے رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ ہو جائے گا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم اب بھی بہت پرامید ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام عمل میں آئے گا، آئی ایم ایف کی طرف سے ہمارا 9 واں جائزہ تمام شرائط و ضوابط سے مطابقت رکھتا ہے اور امید ہے کہ ہمیں اس مہینے کچھ اچھی خبر ملے گی۔
آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ پاکستان قرض پروگرام بحالی کے لیے 6 ارب ڈالر کی اضافی فنانسنگ کا بندوبست کرے جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ آئی ایم ایف جس پیشگی یقین دہانی کو طلب کررہا ہےاس پر سعودی عرب 2 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات ایک ارب ڈالر فراہمی کا یقین آئی ایم ایف کو دلواچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، کفایت شعاری اور درآمدی کنٹرول کو کم کرکے بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو کم کیا اور اب 6 ارب ڈالرز کی ضرورت نہیں لیکن آئی ایم ایف اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
مہنگائی یا افراطِ زر
کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے مہنگائی ایک زہرِ قاتل کی طرح ہے اور یہی وہ بنیادی چیز ہے جس کی وجہ سے سیاسی حکومتیں عوام میں اپنی مقبولیت کھو دیتی ہیں۔ وزیرِ مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں خسارے اور مہنگائی کا توازن قائم کرنا ہوگا، آئندہ بجٹ میں مہنگائی کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
بجا طور پر یہ ایک چیلنج ہے بھی کیونکہ خود حکومت کے ادارہِ شماریات کے اعدادوشمار ایک سال میں ہونے والی مہنگائی کی داستان سنا رہے ہیں۔ مئی 2022ء سے لے کر مئی 2023ء کے درمیان عام استعمال کی اشیا کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور عام آدمی کی پہنچ سے کھانا پینا بھی دور ہوگیا ہے۔ اہم غذائی اجناس جیسے آلو 108، آٹا 99 اور گندم 94.8 اور انڈے 90.3 فیصد مہنگے ہوئے۔ عام کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ تعلیم کے لیے درسی کتب 114 اور اسٹیشنری بھی 79.3 فیصد مہنگی ہوئیں۔
آئندہ بجٹ میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا
اس کے علاوہ گاڑیوں کا ایندھن 69.9، گیس 62.8، بجلی 59.2، گاڑیوں کے پرزہ جات 45، گھریلو سامان 41، تعمیراتی سامان اور گاڑیاں 38 فیصد مہنگی ہوئیں۔
پاکستان میں مہنگائی کی دوبڑی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ ہے افراطِ زر جبکہ دوسری وجہ ہے مارکیٹ کی نگرانی کا نظام۔ اسٹیٹ بینک کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ وہ یہ اقدام ملک میں زر کے پھیلاؤ کو کم کرکے حاصل کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے مانیٹری پالیسی کے ذریعے اقدامات اٹھاتا ہے۔ اس وقت افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود کو 21 فیصد کردیا ہے جوکہ موجودہ صدی کی بلند ترین بنیادی شرح سود ہے۔
دوسری جانب انتظامی اقدامات، مارکیٹوں کی نگرانی کے ذریعے بھی مہنگائی کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ اقدامات صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہیں۔ مگر وفاقی حکومت اس وقت صوبہ پنجاب اور خبیرپختونخوا میں قائم نگراں حکومتوں کے حوالے سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتی ہے۔ ان کے مطابق دونوں حکومتیں اگر ناجائز منافع خوری اور پرائس مانیٹرنگ پر اپنی کارکردگی بہتر کریں تو قیمتوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ مالی سال میں حکومت کو مہنگائی کو کم کرنے اور قیمتوں میں اعتدال لانے میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔
روپے کی قدر میں کمی
پاکستان کی معیشت کا بہت حد تک انحصار ڈالر کی قدر پر ہے کیونکہ پاکستان بڑے پیمانے پر ایندھن کے علاوہ اشیا خورونوش بھی درآمد کرتا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے مقامی کرنسی میں ایندھن اور غذائی اجناس مہنگی ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے گو کہ روپے کی قدر کا کنٹرول بظاہر حکومت نے اسٹیٹ بینک کے تحت مارکیٹ بیس کردیا ہے مگر حقیقت میں روپے کی قدر کو حکومت کنٹرول کرتی ہے اور قانونی آزادی ہونے کے باوجود اسٹیٹ بینک کو اس حوالے سے آزاد فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔
موجودہ حکومت کے قیام کے وقت روپے کی قدر 185 روپے تھی جوکہ اب بڑھ کر انٹر بینک میں 258 روپے کے قریب ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 311 روپے کی قدر کو چھو چکی ہے۔
روپے کی قدر میں کمی سے پاکستانی معیشت کی عالمی ویلیو ایشن میں بھی کمی ہوتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کے باعث رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 34 ارب ڈالر تک سکڑ گیا ہے اور یہ 375 ارب روپے سے کم ہوکر 341 ارب ڈالرز رہ گیا ہے۔
موجودہ حکومت کی ڈالر پالیسی پر انہی کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کڑی تنقید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اسحٰق ڈار کو ڈالر اور ایندھن کی قیمت قابو میں رکھنے کا بہت شوق ہے۔ جس کی وجہ سے معیشت میں کچھ لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ اور عوام کو نقصان ہوتا ہے۔ مفتاح اسمعٰیل کے مطابق روپے کو ڈی ویلیو ہونے دیں۔ ایک آدمی جو 5 کروڑ کی گاڑی خریدتا ہے، وہ 7 کروڑ کی گاڑی بھی خرید سکتا ہے۔
موجودہ حکومت نے بینکوں کے ایل سی کھولنے کی حد مقرر کردی ہے اور بینک ماہانہ 30 سے 50 کروڑ ڈالرز تک کی ایل سی کھول سکتے ہیں۔ اس سے بینکوں کے پاس ایک طاقت آگئی ہے۔ بااثر افراد کی ایل سیز کھل جاتی ہیں۔ چھوٹے لوگ ایل سی نہیں کھول سکتے ہیں۔ اسی ایل سی کے چکر میں صرف خوردنی تیل کی درآمد پر ایک کمپنی نے 2 ارب روپے کا فائدہ اٹھایا ہے۔
روپے کے قدر میں کمی سے صرف نقصانات نہیں ہورہے بلکہ برآمد کنندہ گان کو فائدہ بھی ہورہا ہے۔ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر سے برآمد کنندہ کو ہر روز اپنی مصنوعات کی فروخت پر فائدہ ہوتا ہے۔ مفتاح اسمعٰیل کے مطابق برآمد کنندہ گان کو جس چیز پر پہلے 10 روپے نفع ہورہا تھا، اب یہ نفع بڑھ کر 50 سے 60 روپے ہوگیا ہے۔ 2، 3 ماہ میں لوگوں کے کاروبار نے بہت کمایا ہے۔
سالانہ ترقیاتی پروگرام
بجٹ میں متوقع طور پر 1100 ارب روپے کا سالانہ ترقیاتی پروگرام رکھا جائے گا۔ یہ وہ پروگرام ہے جوکہ حکومت کو سیاسی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ صوبائی اور وفاقی ترقیاتی پروگرام میں اراکین اسمبلی کی مشاورت سے ان کے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں یا حکومت بڑی سڑکوں، پلوں، نہروں کے پکا کرنے، اسپتال اور اسکولوں کی تعمیر کے لیے فنڈز سیاسی بنیادوں پر جاری کرتی ہے۔