بھرتیوں کا عمل روکنے کا حکم

بلوچستان ہائیکورٹ کے ڈویژنل بینچ نے محکمہ سیکنڈری تعلیم میں ہزاروں بھرتیوں کا عمل روکنے کا حکم دیدیا ہے ۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس سردار احمد حلیمی پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے سنئیر صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بایزید خان کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران حکم سناتے ہوئے سیکرٹری محکمہ تعلیم (سکولز) حکومت بلوچستان کو حکم دیا کہ وہ محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے جاری عمل کے نتائج کا اعلان نہ کریں جبکہ معزز بینچ نے اشتہار نمبر پی آر کیو 115مورخہ 17جولائی 2023کے تحت بھرتیوں کا عمل بھی اگلی سماعت تک معطل کر نے کا حکم دیا
درخواست گزار بایزید خان نے دائر آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ محکمہ تعلیم کے تدریسی وغیر تدریسی کیڈر میں 8551خالی اسامیوں پر سرکاری جوابدہندگان بھرتی کے عمل کو حتمی شکل دینے جا رہے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے اور اس مختصر مدت میں ان عہدوں کو پُر کرنا قطعی نا ممکن ہے معزز عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے محکمہ تعلیم حکومت بلوچستان میں بھرتیوں کے عمل پر سوالیہ نشان لگایا ہےجسکےلئے سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی کو بھر تی کیلئے ٹیسٹ منعقد کرانے کا ٹاسک دیا گیا تھا مذکورہ عمل تا حال جاری ہے لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو بلوچستان شدید مالی بحران کا شکار ہے اور محکمہ تعلیم کو بھی گورننس کے سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔ صوبائی بجٹ کا بڑا حصہ حکومت بلوچستان کے محکموں میں مکمل طور پر امتیازی بھرتیوں اور تقرریوں کی شکل میں غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہو رہا ہے محکمہ تعلیم میں بھی ٹیچنگ سٹاف کو ٹائم سکیل پروموشن دینے کے باوجود انکو متعلقہ تدریسی پوسٹوں کی اپ گریڈیشن کی اجازت بھی دے دی گئی ہے اور معزز عدالت نے27جون 2023کی سماعت کے دوران اس سلسلہ میں نوٹیفکیشن نمبر FD(R-1)Vii-10/2023/2822/2922 پر آپریشن روکنے کا حکم دیا ہے۔ معزز عدالت نے مزید کہا کہ یہ امر بھی پریشان کن ہے کہ صوبے کے سالانہ بجٹ کا 75فیصد سے زائد صرف تنخواہوں اور پینشن پر خرچ ہور ہا ہے جبکہ اسطرح کی دیگر کئی درخواستوں میں عدالت کو پہلے ہی بتا یا گیا ہے کہ صوبے میں 3500سے زائد سکول غیر فعال ہیں۔ اور عدالتی احکامات کے باوجود سکول جانے والی آبادی کو درپیش اس دیرینہ تکلیف دہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے انتظامی اشرافیہ سے کوئی بھی آگے نہیں آیا۔ ایک طرف محکمہ تعلیم نان فکشنل سکولوں کو فعال کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے جبکہ ان سکولوں میں اساتذہ بھی تعینات تھے۔ اور تنخواہیں بھی وصول کر رہے تھے لیکن مختلف ٹیچر یونینز اور ایسو سی ایشن کے دباؤ پر ان سکولوں کو ٹائم سکیل پروموشن دے دی گئی اور نچلے کیڈر میں اعلان کر دہ عہدوں کو مذکورہ بالا نوٹیفیکشن کے تحت اپ گریڈ بھی کر دیا گیا افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ رجحان عام ہو گیا اور سر عام چرچا بھی ہو رہا ہے کہ سرکاری عہدے کباڑ کی نیلامی کی طرح بک رہے ہیں لہذا ان حالات میں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ محکمہ تعلیم کو کوئی حتمی حکم دینے سے قبل محکمہ سے ٹیچروں کی کل تعداد،طلبا کی کل تعداد،سکول چھوڑ جانے والے طلبا کی کل تعداد،نان ٹیچنگ سٹاف کی کل تعداد، نان فنکشنل سکولوں کی کل تعداد اور سکولوں کی مقامات کی تفصیلات طلب کر لی جائے یہ تفصیلات محکمہ تعلیم جامع اور دستخط شد ہ شکل میں عدالت کے سامنے پیش کریگا۔معزز عدالت کے گزشتہ سماعت میں جاری کئے گئے نوٹس کے جواب میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل حکومت بلوچستان نے اسسٹنٹ ڈائر یکٹر (لیگل) محکمہ تعلیم کے ساتھ ملکر جواب جمع کرایا جوکہ عدالت نے غیر تسلی بخش قرار دیکر واپس کر دیا۔ معزز عدالت نے حکم نامہ کی کاپی ایڈووکیٹ جنرل،چیف سیکرٹری حکومت بلوچستان، پرنسپل سیکرٹری وزی اعلیٰ بلوچستان، سیکرٹر ی محکمہ تعلیم (اسکولز)حکو مت بلوچستان کو اطلاع اور تعمیل کیلئے دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کیلئے 17اگست 2023کی تاریخ مقرر کر دی ہے

اپنا تبصرہ لکھیں