ناجائز ٹیکسز

اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسو سی ایشن کے صدر سردار طاہر محمود نے کہا ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ میں رئیل اسٹیٹ کے شعبہ کو ناجائز ٹیکسز کے بوجھ تلے دبا گیا ہے اور یہ ظالمانہ اقدام رئیل اسٹیٹ بزنس کی شہہ رگ دبانے کی کوشش ہے ہم اس فیصلے اور اقدام کے خلاف حکومت پر امن طریقے سے حل کرنے کی درخواست کرتے ہیں تاکہ ملکی معیشت بھی سنبھل جائے اور بزنس بھی تباہ اور برباد نہ ہو‘ انہوں نے یہ بات یہاں نیشنل پریس کلب میں فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے چیئرمین مسرت اعجاز خان‘ سیکرٹری انفارمیشن اسرار الحق مشوانی‘ سردار یاسر االیاس‘ ملک احسن‘ کرنل کیانی‘ ذولقرنین عباسی‘ کاشف چوہدری اور رئیل اسٹیٹ بزنس کمیونٹی کے دیگر ممتاز کاروباری افراد کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہی انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ حکومت ملکی ترقی کے لیے اور معیشت کی بہتری کے لیے ٹیکس ضرور لگائے تاہم ٹیکسز کا نفاذ کرتے ہوئے عدل کے تقاضوں کو مد نظر رکھا جائے اور زمینی حقائق سے کام لیا جائے ہم ماضی میں بھی اب بھی حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ ملکی معیشت کی ترقی کے لیے بزنس کمیونیٹی ٹیکس دے بھی رہی ہے اور دینا بھی چاہتی ہے لیکن اگر حکومت عدل سے کام نہیں لے گی اور حقائق کے برعسک فیصلے کیے جائیں گے تو اس سے بزنس کمیونٹی میں تشویش پیدا ہوگی جس کے نتیجے میں ٹیکس بھی جمع نہیں ہوسکے گا اور ملک میں کاروباری حالار بھی ناسازگار رہنے کا خدشہ رہے گا اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ حکومت بات چیت کے ذریعے یہ معاملہ حل کرے اور ہماری تجویز یہ ہے کہ فائلرز کے لیے سیکش236-k پر ٹیکس کی نظرثانی کی جائے اور یہ شرح فائلرز کے لیے 3 کی بجائے2 فی صد کی جائے‘ اور نان فائلرز کے لیے اس شرح کو 5فی صد کیا جائے انہوں نے کہا کہ ہمارا جائز مطالبہ یہ بھی ہے کہ سیکشن236-C کو فائلرز کے لیے3 سے2 فی صد اور نان فائلرز کے لیے6 سے4 فی صد کیا جائے انہوں نے کہا کہ حکومت گین ٹیکس کا دورانیہ چار سال کیا جائے‘ اور سیکشن7-E ڈیم رینٹل کو ختم کیا جائے انہوں نے کہا کہ حکومت سیکشن100-D کی مدت میں توسیع کرے‘ انہوں نے کہا کہ یہی پانچ ہمارے بنیادی اور ہر حد تک جائز مطالبات ہیں حکومت کو چاہیے کہ ان مطالبات کو تسلیم کیا جائے اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کی تقری کی ضمانت ہم سے لے لی جائے‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار حکومت ماضی میں بھی بات چیت کی ہے اور حکومت اس بات کی گواہ ہے کہ بات چیت کے نتیجے میں مسائل کا حل نکلتا رہا ہے اور اب بھی اس سے راہ فرار کیوں اختیار کی جائے انہوں نے کہا کہ ہم بات چیت کے لیے ہر وقت تیار ہیں اور ہماری سفارشات بھی ہر ممکن حد تک حکومت اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ہوں گی ہم نہیں چاہتے کہ اس مسلۂ پر حکومت کے ساتھ کوئی ایسی راہ اختیار کی جائے جسے سے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہو ہم بات چیت کے ہامی ہیں اور اسی کو مسلۂ کا حل سمجھتے ہیں‘ انہوں نے کہا اگر ہماری طرف سے بات چیت کی دعوت کو تسلیم نہ کیا گیا تو ہمارے پاس پر امن احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا

اپنا تبصرہ لکھیں