ایک سو سے زائد نجی کلینک اور لیبارٹریز نے گزشتہ تین سالوں سے ٹیکس نہیں دیا‘

اسلام آباد
سینیٹ کے حالیہ سیشن میں حکومت کی جانب سے دستاویز فراہم کی گئی ہیں کہ اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک سو سے زائد نجی کلینک اور لیبارٹریز نے گزشتہ تین سالوں سے ٹیکس نہیں دیا‘ یہ اعدادو شمار اس بات کی نشان دیہی کرتے ہیں کہ ہمارے ٹیکس کے نظام میں کس قدر کمزوریاں ہیں‘ سینیٹ میں تعداد تو بتائی گئی تاہم ان کے ذمہ کتنا ٹیکس ہے اس بارے میں حکومت نے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے مالی سال20-22-23 میں ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز سے تقریبا 200 فیصد زیادہ انکم ٹیکس دیا ہے۔ کیونکہ یہ ٹیکس تو تنخواہ کے ساتھ ہی کاٹ لیا جاتا ہے‘ تاہم ملک کے دو مالدار طبقات کی طرف سے کم ٹیکس دینے پر ملک کے کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر ان طبقات کا احتساب کیوں نہیں ہوتا؟ معاشی امور معتبر ذرائع کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال میں 264.3 ارب روپے کا ٹیکس دیا ہے جبکہ ایکسپورٹرز اور ریٹیلرز کی طرف سے ادا کی جانے والی ٹیکس کی رقم نواسی اعشاریہ پانچ ارب تھی، جو تنخواہ دار طبقے کی طرف سے ادا کی جانے والی ٹیکس رقم سے 175 ارب روپے کم بنتی ہے۔گزشتہ مالی سال میں ستائیس اعشاریہ سات ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کی لیکن انہوں نے انکم ٹیکس کی مد میں صرف 74 ارب روپے ادا کیے جبکہ ریٹیلرز نے 15.6 ارب روپے ادا کئے۔ رپورٹ کے مطابق تنخوادار طبقہ ود ہولڈنگ ٹیکس دینے میں چوتھے نمبر تھا ٹیکس امور کے ماہرین کے مطابق کہ ایکسپورٹرز کے لیے انکم ٹیکس کی ایک خاص شرح ہے، جس کے مطابق وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ایکسپورٹرز کوجتنا پیسہ آیا ہوتا ہے اس پر ایک فیصد انکم ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ اس میں چاہے انہیں نقصان ہو یا فائدہ انہیں ایک فیصد ہی دینا پڑتا ہے۔ اس لیے ان کا ٹیکس کم ہوتا ہے۔پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے مالی سال20-22-23 میں ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز سے تقریبا 200 فیصد زیادہ انکم ٹیکس دیا ذرائع کے مطابق حکومت اس سے زیادہ ٹیکس نہیں بڑھا سکتی۔ ”کیونکہ اگر اس سے زیادہ ٹیکس بڑھائے گی، تو پھر حکومت کو فارن ایکسچینج ملک میں لانے میں مشکلات ہوں گی. کیونکہ اس ٹیکس کی شرح کو بڑھایا نہیں جا سکتا اس لیے ایکسپورٹرز کی طرف سے ادا کیا جانے والا انکم ٹیکس بھی کم ہی ہو گا اس کے بدلے میں بر آمد کنندگان حکومت سے بے تحاشہ سہولیات اور مراعات لیتے ہیں لیکن جب ٹیکس ادا کرنے کا معاملہ آتا ہے تو حاصل کی جانے والی مراعات کے مقابلے میں ٹیکس بہت کم ہوتا ہے سب سے بڑی سہولت یہ ہے کہ برآمد کننگان آسان شرائط پہ قرض لیتے ہیں۔ خام مال کی مد میں حکومت سے سہولیات طلب کرتے ہیں۔ بجلی اور انرجی کی قیمتوں میں بھی وہ حکومت سے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود انکم ٹیکس کی شرح صرف ایک فیصد ہوتی ہے ٹیکس ماہرین کے مطابق حکومت برآمد کنندگان کو مراعات دیتی ہے، اس کے حساب سے ان سے کم از کم 10 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں میں بڑے پیمانے پہ صنعت نہیں لگی لیکن ریٹیلرز کے کاروبار میں کافی وسعت آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 20 لاکھ سے زیادہ ریٹیلرز ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد کریانہ اسٹورز کی بھی ہے۔ ریٹیل سیکٹر کا جی ڈی پی میں پندرہ فیصد حصہ ہے اور ملک کی پندرہ فیصد لیبر فورس بھی اس سے وابستہ ہے۔ یوں ی اسے ہ ملکی معیشت کا تیسرا بڑا سیکٹر اور روزگار فراہم کرنے والے دوسرا بڑا سیکٹر شمار کیا جاتا ہے۔اس وسعت کے باوجود ریٹیل سیکٹر میں فوائد سمیٹنے والے سرمایہ دار بہت کم انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ ریٹیلرز جو ریٹرنز جمع کراتے ہیں، انہی کی بنیاد پر انکم ٹیکس لگایا جاتا ہے، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ریٹیلرز کی ایک بہت بڑی تعداد رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔ جب اتنی بڑی تعداد رجسٹرڈ نہیں ہو گی تو ان پر کس طرح ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے‘ ریٹیلرز جو چیز فروخت کرتے ہیں، اس کے اعدادو شمار میں بھی فرق ہوتا ہے اگر انہوں نے10 ٹن چینی بیچی ہے تو وہ ریکارڈ میں 7 ٹن ظاہر کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کچھ مسائل سپلائی چین سسٹم کے بھی ہیں۔ شوگر کی فصل میں جہاں 10 فیصد ریکوری ہوئی ہو وہاں وہ سات فیصد ریکوری ظاہر کر سکتے ہیں‘حکومت پاکستان نے وقتا فوقتا ریٹیلرز کی طرف سے اس طرح کے مسائل کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ اقدامات کے نتائج بہتر آئے ہیں لیکن مجموعی طور پر صورت حال تسلی بخش نہیں ہے بڑے سپر اسٹورز یا برانڈز کو ایف بی آر سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اور اب آپ کو جو رسید مل رہی ہے اس رسید کی ایک کاپی ایف بی آر کو بھی جا رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ ہول سیلرز یا دکان دار ہیں، ان کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟

اپنا تبصرہ لکھیں