انسانیت جب مقام آدمیت سے گِر کر ظلمتوں کی پستیوں میں گھری ہوئی تھی ایک مقدس رات، مقدس سر زمین مکّہ میں تقدس و عظمت کے مالک حقیقی کے مقرب و مقدس فرشتے جبرائیل ؑ نے افضل و اکمل ہستی، اقدس نبی کریمؐ پر پہلی وحی القا کی۔ جس نے سارے عالم کو علم کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ کردیا۔ یعنی پہلی وحی کا آغاز عقیدے یا اعلان نبوت کے کسی خاص پیغام سے نہیں بلکہ لفظ ’’اقرا‘‘ سے ہوا یعنی اگر پڑھنے اور علم حاصل کرنے سے انسان کا تعلق قائم ہوجائے تو خالق و مالک کی معرفت بھی حاصل ہوسکے گی۔ اور نبوت، وحی سے بھی تعلق جُڑ جائے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پہلی وحی کی پہلی آیت ِ مبارکہ میں ارشاد ہوا کہ: ’’پڑھیے اپنے ربّ کے نام سے‘‘ جو ہر چیز کا خالق ہے۔ ’’معلوم ہوا کہ ہر علم پسندیدہ اور محمود نہیں ہے‘‘ کیونکہ بہت سے علوم تو ایسے بھی ہیں جو بجائے خود انسانیت کے لیے نقصان اور ضرر کا باعث ہیں اس لیے علم وہی پسندیدہ، نافع اور باعث ِ خیر و برکت ہوسکتا ہے جس کا تعلق خالق سے جڑا ہوا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اس اْمت ِ آخر کے لیے جس نبی رحمتؐ کا انتخاب فرمایا اْسے اْمَی رکھا کیونکہ جسے مْعلم انسانیت بننا تھا وہ کسی انسان کا شاگرد کیسے بنایا جاسکتا تھا۔ اس لیے سورۂ رحمن میں ارشا د فرمایا: ’’رحمن وہ ہے جس نے قرآن سکھایا‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ’’اور آپ کو وہ کچھ سکھایا جو آپ نہ جانتے تھے‘‘ خود نبی کریمؐ نے اپنی بعثت کے مقصد کو اْجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ’’انّما بْعِثتْ معَلّمِاً‘‘ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ نبی کریمؐ نے مکّہ مکرمہ میں دارِ ارقم کو اسلام کی پہلی اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے متصل چبوترے کو دوسری باقاعدہ درس گاہ بنایا ویسے تو آپؐ کے گھر بھی ایک طرح سے تعلیمی ادارے ہی تھے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے اْمت نے آدھا دین سیکھا ہے اْ ن کی تعلیم و تربیت خود نبی کریمؐ ہی نے فرمائی تھی اور پر آپؐ ہی کی تعلیم وتربیت یافتہ آپؐ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ زھراہؓ جنہوں نے اپنے بچوں خاص طور پر حسنین کریمینؓ کی ایسی تعلیم و تربیت فرمائی کہ حق کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ معلم انسانیت کی حیثیت سے نبی کریمؐ کی سب سے اعلیٰ، ارفع بات قول وفعل میں ہم آہنگی تھی آپؐ جو تعلیم دوسروں کو فرماتے وہ پہلے خود اْس پر عمل کرتے نظر آتے، اپنے لیے عزیمت کا راستہ اختیار فرماتے اور دوسروں کے لیے رخصت اور سہولت کا راستہ بتاتے۔ نبی کریمؐ کے فلسفہ ٔ تعلیم میں تدریج کو نمایاں حیثیت حاصل ہے یعنی یکدم بھاری بھر کم نصاب کے بجائے تھوڑا تھوڑا سکھانا جس کا مقصود حاصل ہو یعنی وہ علم انسان کے اخلاق و کردار کا حصہ بنتا چلا جائے ورنہ نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہمارے معاشرے میں ’’پڑھے لکھے جاہل‘‘ کے عنوان سے نظر آتا ہے۔ اسی طرح آسان سے مشکل کی طرف تعلیم آج مہذب دنیا نے نبی کریمؐ کی تعلیمات سے سیکھی ہے جب آپؐ نے سیدنا معاذ بن جبلؓ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو انہیں خاص ہدایت فرمائی کہ اپنے احکامات و معاملات کو لوگوں کے لیے سہولت کا باعث بنانا، دشواری و مشکل نہ بنانا۔ اور انہیں خوشخبریاں دینا۔ اْنہیں نفرت نہ دلانا۔ اسی طرح ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے اپنے پیش امام کے حوالے سے شکایت کی کہ یہ بہت لمبی لمبی نمازیں پڑھاتے ہیں تو آپؐ نے خفگی اظہار فر مایا اور ہدایت فرمائی کہ نماز کی امامت کراتے ہوئے خیال رکھو، بزرگ، بیمار اور اپنی ضرورت سے جانے والے لوگ بھی نماز میں شامل ہوتے ہیں۔
نبی کریمؐ کے نظام تعلیم میں دینی یا دنیاوی تعلیم کی تفریق نہ تھی بلکہ ہر وہ علم جو نیک نیتی کے ساتھ مخلوق کے فائدے کے لیے ہو وہ دینی علم ہی شاخ تصور کے گیا۔ غزوۂ بد میں وہ جنگی قیدی جو اپنی رہائی کے لیے فدیہ نہ دے سکتے تھے، اْن کے لیے کہ گیا کہ وہ مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو یہ ہی اْ ن کی طرف سے فدیہ ہوگا۔
آگر آج بھی ہم معلم انسانیتؐ کے نظریہ تعلیم کے مطابق اپنے تعلیمی نظام کی تنظیم نوکریں تہ مدرسہ اور اسکول، جامعہ اور یونیورسٹی کا فرق ختم ہوجائے گا مسٹر اور ملا کی تفریق مٹ جائے گی، دینی و دنیاوی علوم و فنوں کے حسین امتزاج کے ساتھ قوم کو صالح اور ’’حقیقی عالم‘‘ قیادت میسر آئے گی۔
آج ملک میں ایک طرف دینی مدرسوں اور دنیوی اسکولوں کی تفریق ہے تو دوسری طرف ایک نئی تفریق انگلش میڈیم اور اردو میڈیم سے آگے بڑھ کر میٹرک سسٹم اور اے لیول اور او لیول کی قائم ہوچکی ہے۔ سیرتِ مصطفویؐ اور نظام تعلیم محمدیؐ ہی دراصل وہ صراطِ مستقیم ہو جس میں کوئی ٹیڑھ اور پیچیدگی نظر نہیں آتی اس کے علاوہ جس تعلیمی سسٹم کو بھی لیا جائے اس میں خوبیاں ہیں تو خامیاں بھی موجود ہیں۔ لیکن نبی کریمؐ کے تعلیمی نظام میں خوبیاں تو ہیں لیکن خامی کجی یا کمی کوئی بھی نہیں ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۴ سو سال پْرانا وہ نظام دورِ جدید کے لیے اْ سی طرح کار آمد اور سود مند ہے جس طرح عہد قدیم کے لوگوں کے لیے فائدہ مند تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معلم انسانیتؐ کا نظام تعلیم نصیب فرمادے۔ (آمین)
