باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
اللہ کی شان اور عظمت کا بیان کرنے کے لیے اذان ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اذان نہ صرف اسلام کا ایک بنیادی جزو ہے بلکہ یہ دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ اذان کی اہمیت اور اس کے روحانی اثرات کو ہم سب کے دلوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔ اذان کا عمل اسلام کے آغاز کے وقت سے شروع ہوا اور حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی اذان سے اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا گیا۔ آج بھی اذان سننا مسلمانوں کے دلوں میں ایک روحانی سکون اور اللہ کی یاد کا ذریعہ بنتا ہے۔
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی اذان اور اس کی روحانیت حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی اذان اسلامی تاریخ کی سب سے پہلے اذان تھی، اور یہ وہ اذان ہے جسے ہم آج بھی دنیا بھر میں سنتے ہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے منفرد اور گونجدار لہجے میں اذان دی، جس نے نہ صرف مسلمانوں کو اللہ کی یاد دلائی بلکہ ایک نیا معیار قائم کیا۔ جب نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ مدینہ واپس آئے، تو ان کے دل میں نبی ﷺ کی جدائی کا غم تھا، اور جب انہوں نے اذان دی، تو مدینے کے لوگ روتے ہوئے گلیوں میں نکل آئے۔ یہ منظر ایک ایسا روحانی تجربہ تھا جس نے تمام مدینیوں کے دلوں کو جیت لیا اور انہیں نبی ﷺ کی یاد تازہ کر دی۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کی حقیقت اور اثرات آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی اذان ایک دعوت تھی، ایک پکار تھی کہ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اپنی زندگی کو درست کرو۔ یہی اذان کا اصل مقصد تھا، جو ہر زمانے میں مسلمانوں کے دلوں کو بیدار کرتا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں جو محبت اور ایمان تھا، وہ آج بھی سننے والوں کو اپنے دلوں میں اُتار لیتا ہے۔
اذان کی اہمیت اور اس کا اثر آج بھی جب ہم اذان سنتے ہیں، تو ہمارے دلوں میں ایک عجیب سا سکون اور ایک نئی توانائی کا احساس ہوتا ہے۔ اذان کا پیغام ہر مسلمان کے دل میں اللہ کی عبادت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مؤذن کی آواز میں جو تاثیر ہوتی ہے، وہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف مائل کرتی ہے اور ان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے۔
لیکن افسوس کہ آج کل کی دنیا میں اذان کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات مائیک اور اسپیکرز کے ذریعے اذان دی جاتی ہے اور یہ محض ایک آواز بن کر رہ جاتی ہے۔ اذان دینے والے کی آواز میں نہ تو وہ روحانیت ہوتی ہے نہ وہ خلوص، جو ہمیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں ملتا ہے۔
مائیک کا استعمال اذان کے پیغام کو ہر گوشے تک پہنچانے کا ذریعہ ضرور ہے، مگر اذان دینے والے کی آواز میں بھی وہ تاثیر ہونی چاہیے جو لوگوں کو اللہ کی عبادت کی طرف راغب کرے۔ میں ہمیشہ اپنے پوتوں ریحان اور عالیان کو یہ سکھاتا ہوں کہ اذان دینے کے لیے صرف اچھی آواز نہیں، بلکہ دل کی صفائی اور نیت کی بھی اہمیت ہے۔ جب آپ اللہ کے گھر میں لوگوں کو بلانے کے لیے اذان دیتے ہیں، تو اس کی آواز میں اللہ کی عظمت اور اس کی یاد کا اثر ہونا چاہیے۔
پہاڑی علاقے میں اذان کی جاذبیت میرے بچپن کی بہت سی یادیں اذان کے حوالے سے جڑی ہوئی ہیں۔ خاص طور پر وہ اذانیں جو پہاڑی علاقے نلہ میں دی جاتی تھیں۔ میرے تایا عبدالغفار اور بھائی امتیاز جب پہاڑوں میں اذان دیتے تھے، تو ان کی آواز پہاڑوں کی خاموشی میں گونج کر ایک روحانی کیفیت پیدا کرتی تھی۔ اس اذان میں ایک خاص نوعیت کا اثر ہوتا تھا، جو دلوں کو اللہ کی طرف راغب کرتا تھا۔
پہاڑی علاقوں میں اذان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کی آواز قدرتی طور پر دور تک سنائی دیتی ہے۔ پہاڑوں کی خاموش فضا میں اذان کی آواز جیسے بادلوں کے درمیان گونج کر دلوں تک پہنچتی ہے۔ یہ اذان ایک نئے عہد کا پیغام دیتی ہے، ایک نئی روح کی تازگی۔ وہ اذانیں اب بھی میری یادوں میں زندہ ہیں اور مجھے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی یاد دلاتی ہیں۔
مسجد مدنی کی اذان میری زندگی کے ایک اور اہم لمحے کی اذان باغبان پورہ کی مسجد مدنی میں دی جانے والی اذان تھی۔ مسجد مدنی کے مؤذن کی آواز میں ایک خاص اثر تھا۔ ان کی آواز میں ایسا جذبہ اور روحانیت تھی کہ جب وہ اذان دیتے تھے، پورے محلے کے لوگ نہ صرف جاگ جاتے بلکہ اللہ کی یاد میں غرق ہو جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہر جمعہ کے دن مسجد مدنی کی اذان کے وقت محلے میں ایک عجیب سی روحانی فضا ہوتی تھی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان مؤذن کو صحت و تندرستی عطا فرمائے اور ان کی زندگی میں برکتیں دے۔ ان کی اذان آج بھی میرے دل میں گونجتی ہے اور مجھے یاد دلاتی ہے کہ اللہ کی عبادت کے لیے بلاوا دینے والے کی آواز میں خاص اثر اور خلوص ہونا چاہیے۔
اذان کا پیغام اور مؤذن کی ذمہ داری اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے، وہاں تک کا ہر جاندار قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دے گا۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ اذان صرف ایک آواز نہیں بلکہ ایک عظیم پیغام ہے۔ اذان کا پیغام ہر مسلمان کے دل میں اللہ کی عبادت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مؤذن کی آواز میں جو تاثیر ہوتی ہے، وہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف مائل کرتی ہے اور ان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے۔
کچھ جگہوں پر اذان دینے والوں کی آوازیں خوبصورت نہیں ہوتیں، اور یہ اذان کے پیغام کی تاثیر کو کم کر دیتی ہیں۔ میں ہمیشہ اپنے بچوں کو یہ سکھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اذان ایک مقدس عمل ہے اور اس کے لیے صرف اچھی آواز نہیں بلکہ دل کی صفائی اور نیت کی بھی اہمیت ہے۔
اذان اور قرآن کی تعلیم میں نے اپنے پوتوں ریحان اور عالیان کو قرآن کی تعلیم دی ہے اور انہیں قرآن کی تلاوت کی اہمیت سمجھائی ہے۔ ان کی آواز میں اللہ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی صلاحیت ہو، یہ میری دعا ہے۔ ریحان اور عالیان، جو روٹس ملینیم اسکول کے بہترین مقرر ہیں، اللہ ان کی یہ صلاحیت اذان اور قرآن کی خدمت کے لیے استعمال کرے۔ میری خواہش ہے کہ جب وہ تراویح پڑھائیں، تو ان کی آواز میں وہ اثر ہو جو لوگوں کے دلوں کو جھکائے اور ان کے اندر اللہ کی عبادت کا جذبہ پیدا کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں میں اذان کی اہمیت اور اس کے پیغام کو سمجھنے کی توفیق دے۔ اللہ ہمیں اپنی عبادات میں خلوص عطا فرمائے اور ہمیں اذان دینے کی توفیق دے تاکہ ہم بھی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کا ذریعہ بن سکیں۔ آمین۔
آخر میں، میں ہر اذان دینے والے مؤذن کو سلام پیش کرتا ہوں، خاص طور پر مسجد مدنی میں اذان دینے والے میرے عزیز دوست فاروق صاحب کو۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی دے اور ان کی اذان کے ذریعے ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق دے۔ ان کی آواز کی تاثیر ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ایک اہم نقطہ میں اپ سب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں میں نے یہ جب کالم شروع کیا تو ظہر کی اذان ہو رہی تھی اور جب ختم کیا تو ظہر کی اذان جاری ہیں کیا ہم ایک خدا ایک نبی اور ایک قران کو ماننے والے ایک اذان کے وقت پر متحد نہیں ہو سکتے یہ میں سوال چھوڑے جا رہا ہوں