باعث افتخار
انجینئر افتخار احمد چودھری
پاکستان کی سیاست میں کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے مسائل عرصے سے بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف حکومتی ادارے ان مسائل کے خاتمے کے لیے متحرک نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف کچھ افراد ان مشکلات کے درمیان اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ ملک ریاض، حسین نواز، اور لندن میں خریدی گئی 190 ملین پاؤنڈ کی جائیداد کے ساتھ ساتھ نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) کی تحقیقات، اس کیس کو ایک نیا رخ دیتے ہیں۔
قرآن اور احادیث میں کرپشن اور رشوت کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ 28، آیت 77 میں فرمایا:
“اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، بے شک اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔”
یہ آیت کرپشن اور بدعنوانی کی روک تھام کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
“رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنم میں ہیں۔” (ابن ماجہ)
ان دونوں اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کرپشن کا نتیجہ نہ صرف دنیا میں تباہی کی صورت میں نکلتا ہے بلکہ یہ آخرت میں بھی سخت عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا یقین کرنا چاہیے کہ کرپشن اور بدعنوانی سے بچنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔
عمران خان کی سیاست کا آغاز کرپشن کے خلاف مہم سے ہوا تھا۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی جڑیں بہت گہری ہیں، اور اس کے خاتمے کے لیے صرف ایک مضبوط حکومتی ارادے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے بار بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے تعاون کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ان کے مطابق، پاکستان میں احتساب کا نظام عدلیہ کی آزادانہ کارروائیوں پر منحصر ہے، اور جب تک عدلیہ خود مختار نہیں ہوگی، تب تک کرپشن کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
عمران خان کے اس موقف نے انہیں عوامی سطح پر ایک کامیاب رہنما کے طور پر متعارف کرایا، کیونکہ انہوں نے ہمیشہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی سیاست کو اس پر استوار کیا۔ ان کی حکومت میں کرپشن کے خلاف اقدامات تو اٹھائے گئے، مگر ان کے مخالفین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عمران خان نے خود بھی بعض مواقع پر انہی عناصر کو تحفظ دیا جو کرپشن میں ملوث تھے۔
پاکستان میں عدلیہ کی آزادی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ عدلیہ کے فیصلے کبھی کبھار سیاسی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے اس کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔ اس کا اثر عوام کے اعتماد پر پڑتا ہے، اور یہ نظام انصاف کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔
نیلسن منڈیلا کا ایک مشہور قول ہے:
“انصاف کی طاقت عوام کی حمایت سے بڑھتی ہے، لیکن جب یہ طاقتور اداروں کے خلاف ہو، تو یہ سب سے مضبوط ہوتی ہے۔”
پاکستان میں عدلیہ نے کئی بار سیاسی دباؤ کے باوجود اپنی آزادی کا دفاع کیا، لیکن اس کے باوجود کئی مواقع پر یہ سوالات اٹھائے گئے کہ آیا عدلیہ واقعی آزاد ہے یا اس پر کسی قسم کا سیاسی یا انتظامی دباؤ ہے؟ اس کے باوجود، عدلیہ کی آزادی کی اہمیت پر زور دینا ضروری ہے تاکہ عوام کا اعتماد برقرار رہ سکے اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔
ملک ریاض ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں جنہوں نے حسین نواز سے 190 ملین پاؤنڈ کی جائیداد خریدی۔ یہ معاملہ اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے اس لین دین کی تحقیقات شروع کیں۔ NCA کا دعویٰ تھا کہ یہ لین دین منی لانڈرنگ کے ذریعے کیا گیا تھا۔ اس معاملے نے کئی سوالات کو جنم دیا کہ حسین نواز نے یہ جائیداد کیسے حاصل کی، اور آیا اس میں کسی غیر قانونی سرگرمی کا عمل دخل تھا یا نہیں۔
اس تحقیقات نے ایک اہم نکتہ یہ اٹھایا کہ کیا پاکستان میں بزنس اور سیاست کے درمیان تعلقات اتنے پیچیدہ ہو چکے ہیں کہ ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں؟ یہ معاملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں کاروباری افراد اور سیاستدانوں کے درمیان گہرے روابط ہیں، اور بعض اوقات یہ روابط مفادات کی بنیاد پر چلتے ہیں۔
القادر یونیورسٹی کا قیام ایک مثبت قدم تھا جس کا مقصد تعلیمی معیار کو بلند کرنا تھا۔ تاہم، اس یونیورسٹی کی بنیاد پر سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ آیا یہ واقعی تعلیمی ترقی کی سمت میں ایک قدم ہے یا یہ صرف سیاسی مفادات کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اس یونیورسٹی کے نصاب میں بھی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن پر تنقید کی گئی، خصوصاً جب بات سیاسی نظریات کی تعلیم دینے کی ہو۔
نصاب میں تبدیلیوں کا یہ رجحان پاکستان میں خاصا عام رہا ہے، جہاں حکومتی حکام اپنے سیاسی مفادات کے لیے نصاب میں تبدیلیاں کرتے ہیں۔ اس کا اثر تعلیمی معیار اور طلباء کی سوچ پر پڑتا ہے، جو کہ ایک طویل مدتی مسئلہ بن سکتا ہے۔
پاکستان میں نصاب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رجحان کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تعلیم کو سیاسی نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کرنے سے طلباء میں تنگ نظریہ اور فرقہ واریت کا پیدا ہونا ممکن ہے۔ یہ قوم کے اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں کو کمزور کر دیتا ہے، اور اس سے تعلیمی معیار متاثر ہوتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں جو نہ صرف اسلامی تعلیمات پر مبنی ہوں بلکہ طلباء کو ایک آزاد اور کھلا ذہن بھی دیں تاکہ وہ مختلف مسائل پر سوچنے اور تجزیہ کرنے کے قابل ہوں۔
عمران خان کی سیاست میں بشریٰ بی بی کا کردار ایک اہم موڑ تھا۔ بشریٰ بی بی کے ساتھ ان کی شادی اور ان کے بعد آنے والے سیاسی معاملات نے ان کے مخالفین کو خاموش کر دیا۔ بشریٰ بی بی نے اپنی زندگی کو سادہ رکھا، اور عمران خان کے ساتھ ان کا رشتہ ایک مثالی نمونہ بن کر ابھرا۔ ان کی زندگی کے اس نئے باب نے ان کے سیاسی سفر کو نئی سمت دی۔
عمران خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ ان کے فیصلے اللہ کے حکم پر مبنی ہیں، اور وہ ہر کام میں اپنی دعاؤں اور اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مخالفین نے ان پر کئی الزامات عائد کیے ہیں، مگر انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹنے کی کوشش کی۔
پاکستان کو ایک مضبوط عدلیہ، کرپشن سے پاک نظام، اور سیاست سے آزاد تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے نظام کو درست کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں نہ صرف سیاستدانوں اور حکومتی اداروں کو اپنے فرض یاد دلانا ہوگا بلکہ عوام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہوگا۔
احمد فراز کی غزل سے اختتام کرتے ہیں:
نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے کیا کیا جائے