جے یو آئی کو ہی کیوں منتخب کیا
وزیراعظم اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبر پختونخوا میں گذشتہ دنوں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی وجہ پہلے مرحلے میں ’غلط پالیسیوں‘ کو قرار دیا ہے۔اپنے ایک بیان میں بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کے لیے غلط امیدواروں کے چناؤ کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ دوسرے مرحلے میں بلدیاتی الیکشن کی منصوبہ بندی و حکمت عملی کی جانچ پڑتال خود کریں گے۔وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو سراہتے ہوئے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے بعض اراکین نے بتایا کہ ان کی سیاسی جماعت اندرونی طور پر کئی منفی عوامل کا شکار ہے تاہم جس سے وزیر اعظم کو لاعلم رکھتے ہوئے اعلیٰ قیادت انہیں صرف ’سب اوکے‘ کی رپورٹ سے مطمئن کرتے رہے۔واضح رہے کہ 19 دسمبر کو خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات صرف پہلے مرحلے کے انتخابات تھے جس میں تین قبائلی اضلاع سمیت کل 17 اضلاع شامل رہے۔اگرچہ غیر حتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق، پشاور میں سٹی میئر کے عہدے پر جمعیت علمائے اسلام کا امیدوار کامیاب ہوا ہے لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہ کہ جن چھ پولنگ سٹیشنوں پر بدنظمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کر دیا گیا تھا وہاں دوبارہ پولنگ کرائی جائے گی۔ دوبارہ پولنگ کے لیے تاحال کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے تاہم یہ طے ہے کہ سٹی مئیر کے لیےچھ پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گےجمعیت العلمائے اسلام کے ٹکٹ پر پشاور سے سینیٹر غلام علی کے فرزند زبیر علی کی سٹی میئر کے عہدے پر کامیابی کو جہاں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے لیے ایک ’بدترین شکست‘ سمجھا جارہا ہے وہیں سیاسی افق پر باعث تشویش بھی سمجھا جارہا ہے۔ہ ’جن سیاسی جماعتوں کو جے یو آئی کے جیتنے پر دھچکا لگا ہے، انہیں خود اپنی ’کیلکولیشنز‘ نے دھوکہ دیا ہے، کیونکہ وہ اپنا مدمقابل کسی اور کو سمجھتے رہے۔‘ پی ٹی آئی کی بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں ناکامی کو تین عوامل میں تقسیم کرتے ہوئے بتایا کہ اس شکست کے پیچھے سیاسی، معاشرتی عوامل دیکھنے کے ساتھ ساتھ ای سی پی کا وہ ڈیٹا دیکھنا بھی اہم ہے جس کے مطابق، 2018 کے الیکشن میں 63 فیصد ووٹ بینک 18 سے 32 سال کی عمر کے افرادکا تھا، اور جن میں اکثریت نے پہلی مرتبہ ووٹ ڈالا تھا۔’جو لوگ جے یو آئی کی کامیابی اور پی ٹی آئی کی ناکامی کو ایک حیران کن خبر سمجھتے ہیں، وہ دراصل حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آگاہی نہیں رکھتے۔‘’پہلی بات تو یہ کہ پی ٹی آئی نے پاپولر امیدواروں کے برعکس غیر معروف و ناپسندیدہ امیدواروں کو ٹکٹ دیے۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے ویلج و نیبر ہڈ میں پارٹی کو تقسیم سے بچانے کے لیے آزاد امیدوار کھڑے کیے۔ دوسری جانب، جے یو آئی ف نے حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ان کے آزاد امیدواروں کو خاص کر جن کا ووٹ بینک زیادہ تھا،کو ساتھ ملاکر سٹی میئر کے عہدے کے لیے تعاون مانگتے ہوئے ان کے ساتھ ان-آفیشل سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔‘پی ٹی آئی کے کارکنان اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز سے ناراض ہیں۔ دوسری جانب، عوام بھی مہنگائی کی وجہ سے ان کی کارکردگی سے ناخوش ہیں، لہذا صرف وہ لوگ ووٹ ڈالنے آئے جو مہنگائی سے براہ راست متاثر ہو رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے زیادہ ہوتا تو شاید پی ٹی آئی جیت جاتی۔‘ اگر یہ فرض کیا جائے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اس وجہ سے ووٹ نہیں ملا کہ عوام ان کی کارکردگی سے ناخوش تھے، تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کو ووٹ دے دیتے، لیکن انہوں نے جے یو آئی کو ہی کیوں منتخب کیا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔’لہذا میرا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا حکومت کے حوالے سے سخت نقطہ نظر اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس اپوزیشن کا کردار بہت اچھے طریقے سے نبھایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی جماعت اور کارکنان کو بھی فعال رکھا، اور مسلسل خبروں میں رہے۔‘