پاکستان میں چینی کے بحران کے حوالے سیپرائم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے، رپورٹ میں اہم اشاریوں، حکومتی پالیسیوں اور تجارتی امکانات کے رجحانات کا تجزیہ کرکے پاکستان میں چینی کے شعبے کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے، اہم اشاریوں، حکومتی پالیسیوں اور تجارتی امکانات کے رجحانات کا تجزیہ کرکے پاکستان میں چینی کے شعبے کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ چینی کے شعبے کی سپلائی چین کے ہر پہلو: کاشتکاری، گنے کی قیمتوں کا تعین، گنے کی کرشنگ، چینی کی خوردہ قیمت اور چینی کی تجارت براہ راست یا بالواسطہ طور پر حکومت کے زیر اثر ہے۔ حکومت نے قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے انتظامی کنٹرول نافذ کیے ہیں لیکن چینی مارکیٹ میں مختلف قیمتوں پر فروخت ہوتی ہے ۔
رپورٹ میں 2011 سے 2021 تک کے 10 سالوں کا چینی کی مارکیٹ کا تجزیہ کیا گیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کی صنعت مینوفیکچرنگ سیکٹر کا 6 فیصد اور فصل کی معیشت کا 13 فیصد ہے۔ چینی کا شعبہ 10 لاکھ افراد کو براہ راست روزگار فراہم کرتا ہے اور 2021 تک اس کی مارکیٹ کا حجم 501 بلین روپے ہے۔نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں رپوٹ پیش کرتے ہوئے پرائم انسٹیٹیوٹ کے طلحہ عادل اور علی سلمان کا کہنا تھا کہ چینی کے شعبے کی سپلائی چین کے ہر پہلو: کاشتکاری، گنے کی قیمتوں کا تعین، گنے کی کرشنگ، چینی کی خوردہ قیمت اور چینی کی تجارت براہ راست یا بالواسطہ طور پر حکومت کے زیر اثر ہے۔حکومت نے قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے انتظامی کنٹرول نافذ کیے ہیں لیکن چینی مارکیٹ میں مختلف قیمتوں پر فروخت ہوتی ہے اس طرح حکومتی اقدام بے سود ہو جاتا ہے۔ جبکہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان حکومت کو قیمتوں کے کنٹرول کا استعمال نہ کرنے اور سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی سفارش کرتا رہا ہے۔ حکومت چینی کی تجارت کو کنٹرول کرتی ہے۔ سرپلس کے وقت چینی کی برآمد پر پابندی سے ملوں کے لیے اسٹاک فروخت کرنا اور کسانوں کو ادائیگیاں کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔اس طرح، پورے شعبے کو نقصانات کا سامنا ہے۔ اس وقت شوگر ملوں کے پاس تقریبا 1.3 ملین ٹن چینی کا اضافی ذخیرہ ہے جسے ملکی سپلائی پر کوئی اثر پڑے بغیر 1 بلین ڈالر کمانے کے لیے آسانی سے برآمد کیا جا سکتا ہے کیونکہ نئی فصل تیار ہے۔ بدقسمتی سے حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اور اسی وجہ سے ملوں نے کسانوں سے گنے خریدنے اور کرشنگ شروع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اگر یہ مسئلہ برقرار رہا تو اگلے سال چینی کی قلت اور اگلے سیزن کے لیے گنے کی بوائی میں تاخیر ہونے والی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پرائم انسٹیٹیوٹ اس شعبے میں حکومت کی مداخلت کو کم کرنے، پرانے ضابطوں کو ختم کرنے کی سفارش کرتا ہے جو بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اورسال بھر چینی کی برامداد اور تجارت کھول دینے کی تجویز دیتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گنے کی قیمت کو سوکروز ریکوری کے ساتھ جوڑ دے تاکہ کسانوں کو فصل کے معیار کو بہتر بنانے کی ترغیب دی جائے، ملوں کے قیام اور توسیع کے لیے منظوری کی ضرورت کو ختم کیا جائے۔مارکیٹ میں استحکام کے لیے قیمتوں کے کنٹرول کو ختم کر کے چینی کی طلب اور رسد کو قیمتوں کا تعین کرنے دیا جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے گنے کی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو سہولت دینے کے لیے 2011 میں گنے کی سپورٹ پرائس 126 روپے فی 40 کلو گرام سے بڑھا کر 2022 میں 300 روپے فی 40 کلو گرام کر دی ہے۔ گنے کی کاشت شدہ رقبہ 2011 میں 4 فیصد سے بڑھ کر 2021 میں 5 فیصد ہو گیا۔مزید یہ کہ 2011 کے بعد سے، ملک میں چینی کی پیداوار میں مجموعی طور پر 36 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ چینی کی کھپت میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پااکستان میں گنے کی پیداوار 2011 میں 56 ٹن فی ہیکٹر سے بڑھ کر 70 ٹن فی ہیکٹر تک پہنچ گئی اور سوکروز کی ریکوری تقریبا 10 فیصد ہے۔رپورٹ میں تجاویز دی گئی ہیں کہ ترغیبی ڈھانچہ کو مسابقتی منافع کے لیے دوبارہ ڈیزائن کیا جانا چاہیے، جو فصل کے معیار سے منسلک ہو تاکہ کسانوں کو فصل کے معیار کو بہتر بنانے اور زیادہ آمدنی حاصل کرنے کی سہولت دی جا سکے۔. چینی کی خوردہ قیمت بھی مارکیٹ کی قوتوں کی طرف سے شے کی طلب اور رسد کے لحاظ سے طے کی جانی چاہیے۔حکومت قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور شوگر ملوں کو بغیر کسی کٹوتی کے گنے کے کاشتکاروں کو بروقت ادائیگی کرنے پر مجبور کیا جائے۔ گنے کے کاشتکاروں اور ملوں کو نہ صرف ملکی طلب پر توجہ مرکوز کرنے بلکہ بین الاقوامی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے چینی کی برآمد کی اجازت دی جائے۔فصل کی پیداواری صلاحیت اور پیداوار کو کسانوں کے لیے سرمائے تک رسائی کو یقینی بنا کر بڑھایا جا سکتا ہے تاکہ غیر رسمی منڈی اور شوگر ملوں پر ان کا انحصار کم ہو سکے۔ملوں کی توسیع کے لیے لائسنس کی شرط کو ختم کیا جائے تاکہ ملوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو اور مسابقت کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ملک میں چینی کی دستیابی اور قیمت میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ٹیرف اور ٹیکسز کو کم کرکے خام چینی کی درآمد کو مستقل بنیادوں پر کھولا جائے۔ چینی کی نایابی کی صورت میں اور/یا کارٹیلائزیشن کے رجحان کے پیشِ نظر، حکومت کو ریفائنڈ چینی کی درآمد کی اجازت دینی چاہیے