سن دو ہزار اکیس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 38 فیصد کارکن زرعی شعبے میں کام کرتے تھے۔ صنعتی شعبے میں کام کرنے والے پاکستانی کارکنوں کا تناسب قریب پچیس فیصد تھا جبکہ سینتیس فیصد کارکن پیشہ وارانہ خدمات یا سروسز کے شعبے میں کام کرتے تھے۔
سروسز کے شعبے میں کام کرنے والے پاکستانی کارکنوں، خاص کر نوجوانوں کی تعداد گزشتہ چند برسوں میں اس لیے بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ ڈیجیٹل اکانومی اور آن لائن بزنس کے رجحان نے بھی بے شمار نئے معاشی امکانات پیدا کیے ہیں۔
ماہرین اس حوالے سے خاص طور پر آن لائن ٹریڈنگ، غیر ملکی کمپنیوں کے لیے کام کرنے والے کال سینٹرز، ڈیجیٹل لرننگ، ڈیزائننگ، فوڈ ڈلیوری، اوبر اور کریم جیسی لوکل ٹریول ایپس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر پروگرامنگ جیسے شعبوں کی مثالیں دیتے ہیں، جن کا انتخاب کرنے والوں میں بہت بڑی اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔
بین الاقومی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے جاری کردہ گزشتہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح قریب آٹھ فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں قریب انیس ملین بالغ شہری بے روزگار ہیں۔
پاکستان میں غیر روایتی پیشے اس لیے بھی زیادہ پسند کیے جا رہے ہیں کہ نوجوان، تعلیم یافتہ اور بہتر اقتصادی مستقبل کے خواہش مند افراد کے لیے کم لاگت اور لچک دار اوقات کار والی ایسی ملازمتیں کرنا یا اپنا کوئی کام شروع کرنا زیادہ آسان ہو چکا ہے، جن کا تعلق انٹرنیٹ معیشت یا آن لائن سروسز سے ہو۔
ا فیصل حسین نے بتایا، ”میں نے گریجویشن کے بعد سے ملازمت کے لیے بہت بھاگ دوڑ کی۔ پھر ایک عرصے تک ایک دوا ساز کمپنی میں بطور سپروائزر کام بھی کیا۔ میری تنخواہ قریب ایک لاکھ روپے تھی مگر گزر بسر پھر بھی مشکل سے ہوتی تھی۔ پھر قریب تین سال پہلے میں نے اپنا فروزن فوڈ بزنس شروع کیا۔کباب، سموسے، کوفتے اور کئی دیگر فوڈ آئٹمز گھر پر تیار کرنا شروع کیں۔ ساتھ میں نے کچھ ہیلپر بھی رکھ لیے۔ یوں میں نے ان فروزن فوڈ آئٹمز کی ہوم ڈلیوری شروع کی۔ اب میں ماہانہ لاکھوں روپے کماتا ہوں۔‘‘
نارنگ منڈی سے تعلق رکھنے والی فیشن ڈیزائنر نے بتایا کہ اب پاکستان میں نوجوان لڑکیوں میں ایک بڑا رجحان منفرد ملبوسات کے اپنے برانڈ متعارف کرانے کا ہے۔ان کے مطابق اسی رجحان کے نتیجے میں اب شوشل میڈیا پر تقریبا ہر روز ایک نیا برانڈ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان خواتین میں بیوٹی پارلر کے ذاتی بزنس کی طرف جھکاؤ بھی عروج پر ہے۔
کچھ عرصہ ایک اسکول میں بیس ہزار روپے ماہانہ پر ملازمت کی۔ پھر ملبوسات کا اپنا بزنس شروع کیا، جو اب کافی ترقی کر چکا ہے۔میں بیرون ملک بھی اپنے کام کی کئی نمائشیں کر چکی ہوں۔ دو سال پہلے میں نے اپنا ایک نیا برانڈ رنگش بھی لانچ کیا تھا۔‘‘
اس بزنس سے تیس سے چالیس ہزار روپے تک روزانہ کما لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اس موضوع پر کئی ورکشاپس بھی کروا چکی ہیں کہ گریجویٹ لڑکیاں کس طرح اپنے بزنس شروع کر سکتی ہیں۔
پاکستانی نوجوان غیرقانونی طریقے سے باہر جانے پر مجبور کیوں؟
گزشتہ دو سال سے گیمز ڈویلپر کے طور پر کام کرنے والے راولپنڈی کے رہائشی نے کہا، ”پاکستان میں آج کل گریجویشن کے بعد جب ملازمت تلاش کی جائے، تو کہیں نوکری نہیں ملتی۔اس لیے میں نے گیمز اینڈ گرافک ڈیزائنگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فری لانسنگ شروع کر دی۔ ویڈیو ڈویلپنگ، گرافک ڈیزائننگ اور ویب ڈویلپنگ کے کچھ ایڈیشنل کورس کیے تو مجھے مزید پروجیکٹ ملنا شروع ہو گئے، ۔‘‘
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاب سسٹم کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں اس کی ضرورت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ سرکاری شعبے میں تو ملازمتوں کے نئے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پتہ چلتا ہے کہ نوجوان روایتی شعبوں کو چھوڑ کر غیر روایتی جاب سیکٹرز اور سروسز کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لیے کہ اگر کوئی سرکاری ملازمت نہ بھی ملے تو وہ ڈیجیٹل اکانومی میں کہیں نہ کہیں پروفیشنل سروسز میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔‘‘
آج کے پاکستانی نوجوان کوئی ایسا غیر روایتی ہنر سیکھنا چاہتے ہیں، جس کی مدد سے وہ اپنا کوئی کام یا بزنس شروع کر کے بہتر آمدنی حاصل کر سکیں۔
پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور
انہوں نے کہا، ”بے روزگاری کو عموما صرف مردوں کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مردوں، خواتین، ٹرانس جینڈر افراد اور سپیشل پرسنز سمیت ہر کسی کا مسئلہ ہے جسے حل کیا جانا چاہیے۔‘‘