مزدور کا فرض ہے کہ

مزدور ہر سال یہ دن مناتے ہیں‘ تاہم دین رحمت کا اپنا ایک پیغام ہے‘ نبی رحمتﷺ کا پیغام ہے کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے اس کی اجرت دو‘ یہی اسلام کا آفاقی پیغام ہے ہر مزدور کے حوالے سے‘ مگر مزدور کا فرض ہے کہ جب وہ کام کرے تو پسینہ ضرور بہائے‘ کام چوری کی اجرت کوئی نہیں دے گا‘ ان دنوں ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے‘ اور ملک میں بے روزگاری کا بھی رونا رویا جارہا ہے‘ چلیے ذرا کسی دیہاتوں میں جاکر کر معلوم کرتے ہیں کہ جن لوگوں کے گندم کٹائی کے لیے مزدوروں کی آس لگا رکھی ہے انہیں کوئی مزدور اس کام کیے میسر بھی ہے یا نہیں‘……………… لنگر دسترخوانوں نے کام ہی آسان کردیا ہے‘ ایک بار نبی رحمت کے پاس ایک شخص آیا‘ اور کچھ مالی امداد کی درواست کی‘ نبی رحمت ﷺ نے اسے کلہاڑا لے کر دیا کہ جاؤ لکڑیاں کاٹو اور مزدوری کرکے بیچو‘ نبی ﷺ کی اس ہدائت میں برکت بھی اور ایک سبق بھی‘ کچھ عرضے کے بعد وہ شخص دوبارہ حاضر ہوا‘ اور خوسی سے بتایا کہ اس محنت کے نتیجے میں اب اس کے پاس بہت مال اسباب آگیا ہے‘ ہم ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہیں‘ آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ملک ہیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں نے کیا کبھی سوچا کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے مطابق معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں انصاف بھی ہو‘ اور تحفظ بھی‘ آجر اور اجیر دونوں اللہ کا خوف دل میں رکھ کر کام کریں‘ ہمارے ملک میں انتہاء درجے کی نا انصافی نے معاشرے کو جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے‘ حقیقیت یہ ہے کہ کوئی مزدور مزدوری کرکے روزی کمانے کو تیار نہیں‘ اور آجر کسی اجیر کو اس کی مزدوری دینے کو تیار نہیں ہے‘ ہاں البتہ ہر سال یوم مئی منایا جاتا ہے‘ نعرے لگائے جاتے ہیں اور یوں دن گزر جاتا ہے‘ کسی کو مزدور کا علم ہے اور مزدور کے مسائل کا ادراک‘ یکم مئی کو شکاگو کے شہیدوں کی یاد منانے کے لیے دنیا کے ہر ملک میں مظاہرہ کئے جاتے ہیں فرق یہ ہے کہ شکاگو کے مزدوروں کے ہاتھوں میں سفید پرچم تھے مگر آج مزدوروں کے ہاتھوں میں سرخ پرچم ہوتے ہیں جو مزدور شہیدوں کے خون کی علامت ہیں‘پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کسی نہ کسی رنگ میں جاری ہے یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک استحصال کا خاتمہ نہیں ہو جاتا‘ یہ قانون قدرت نہیں ہے کہ مزدور کے گھر میں برسوں مزدور ہی پیدا ہوتے رہیں اور جو کسان دھرتی کا سینہ چیر کر اناج اگاتا ہے اس کے بچے نان جویں کو ترسیں‘ کپڑا بننے والے محنت کشوں کو اپنے بچوں کے جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہ آئے‘ ملک میں پہلی بھٹو دور میں مزدوروں اور محنت کشوں کے لیے پہلی جامع لیبر پالیسی لائی گئی تھی س پالیسی کے مطابق مزدوروں کے اوقات کار 8 گھنٹے مقرر کئے گئے ان کو سوشل سکیورٹی دی گئی‘ اولڈ ایج بینیفٹ دیا گیا ورکرز ویلفیئر فنڈ قائم کیا گیا اور جاب سکیورٹی کو تحفظ دیا گیا مزدوروں کے لئے انشورنس پالیسی جاری کی گئی‘ صنعتوں اور کارپوریشنوں کے منافع میں مزدوروں کا شیئر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا‘ مزدوروں کے بچوں کو مفت تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کی گئیں‘ مزدوروں کی بچیوں کے لیے جہیز فنڈ قائم کیا گیا‘یکم مئی کو عام تعطیل کا اعلان کیا گیا‘افسوس آج ملک میں قانون ہے مگر عمل درآمد نہیں‘ پاکستان کے مزدور اور محنت کش عوام لاوارث ہو چکے ہیں کوئی ایک بھی سیاسی اور مذہبی جماعت کو مزدوروں کی ترجمان قرار نہیں دیا جاسکتا‘پاکستان کے مزدوروں اور محنت کش عوام کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے‘محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزدوروں سے بڑی محبت کرتے تھے ایک روز ایک شخص آپ صلی اللہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے میلے کچیلے کپڑے اور کھردرے ہاتھ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا کام کرتے ہو اس نے کہا پہاڑ کی چٹان کاٹ کر روزی کماتا ہوں – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محنت کش کے ہاتھ چوم لیے-علامہ اقبال نے کہا تھا
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
آج بھی پاکستان میں مزدوروں کو ان کی محنت کی پوری اجرت نہیں دی جاتی‘موجودہ حالات میں مزدور محنت کش عوام زندگی کے پل صراط سے گزر رہے ہیں خود کشیاں ان کا مقدر بن چکی ہیں‘ ان کے پھول جیسے بچے خوراک دوائیں اور صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں‘ امیروں کے کتے دودھ پیتے اور امپورٹڈ خوراک کھاتے ہیں مزدور کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں جبکہ ایوان صدر اور پرائم منسٹر سیکریٹریٹ پر ہر روز کروڑوں روپے صرف کیے جاتے ہیں‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ اسلامی نظام ہے اور نہ ہی جمہوریت ہے مہنگائی اور ناجائز منافع خوری نے محنت کش عوام کا جینا حرام کر دیا ہے بیڈ گورننس کی وجہ سے ہر با اثر شخص عوام کا استحصال کرنے میں آزاد ہے
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
مزدور اور محنت کش اس آفاقی پیغام کو بھول چکے ہیں جب تک مزدور محنت کش اور کسان جب تک اس پیغام کو نہیں سمجھیں گے ان کا استحصال ہوتا رہے گا
علامہ اقبال نے فرمایا تھا –
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
حکم حق ہے لیس للانسان الا ما سعی
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
آج ملکی حالات کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مزدور بیکار ہو گئے ہیں‘پہلے کرونا کے عذاب کی وجہ سے اور اب ملکی حالات کی بے یقینی کی وجہ سب سے زیادہ تکلیف میں گرفتار یہی مزدور طبقہ ہے۔ مِل مالکان نہیں ملوں کے مزدور بیکار ہوئے ہیں کارخانہ اگر کسی وجہ سے بند بھی ہو جائے تو کارخانے کے مالک کی زندگی تو رواں دواں رہتی ہے۔ صرف مزدور کی زندگی رْک جاتی ہے کارخانہ داروں کے بارے میں کبھی کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ساری قانون شکنی مزدوروں کے معاملات میں ہوتی ہے۔ اناج کو مختلف صورتوں میں ڈھالنے والے کارخانے میں کام کرنے والا مزدور سانس کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے عام اناج سے بھی محروم رہتا ہے۔ کپڑوں کے کارخانے میں کام کرنے والا مزدور لاکھوں گز کپڑا روزانہ تیار کرتا ہے مگر خود صرف تن ڈھانپنے کا لباس رکھتا ہے۔ سائیکلوں کے کارخانوں میں کام کرنے والا مزدور موسموں کی شدت میں بھی گھر سے کارخانے اور کارخانے سے گھر تک پیدل سفر کرتا ہے اور اسی کارخانے کا مالک کروڑوں کی اپنی لگژری گاڑیوں میں مختصر ترین سفر طے کرتا ہے۔گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور ان کے بچے امیروں کے گھروں میں سارا دن مرغن کھانے پکانے میں جوت دئیے جاتے ہیں۔ امیروں کا بس چلے تو وہ ان کھانا پکانے والے ملازموں کی آنکھوں پر چمڑے کی وہ عینکیں چڑھا دیں جو کولہو کے بیل کی آنکھوں پر چڑھا دی جاتی ہیں تاکہ ملازموں کو کام کا احساس بھی نہ ہو اور وہ ان کے مرغن کھانوں کو اپنی بدنظر بھی نہ لگائیں۔ سارا دن کھانے پکانے والے ان ملازموں کو شام کو اپنا بچا کچا کھانا دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے تنخواہ بھی کبھی کبھار ہی وقت پر یا پوری دی جاتی ہے‘ یا پھر مزدوری مانگنے پر اس ملک میں گھروں میں کام کرنے والی بچیاں ججوں کے گھروں سے بدترین تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں‘ یہ ہے ہمارا یوم مئی اور ہمارا مزدور طبقہ

اپنا تبصرہ لکھیں