علامہ اقبال نے فرمایا تھا –
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
حکم حق ہے لیس للانسان الا ما سعی
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
آج ملکی حالات کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مزدور بیکار ہو گئے ہیں‘پہلے کرونا کے عذاب کی وجہ سے اور اب ملکی حالات کی بے یقینی کی وجہ سب سے زیادہ تکلیف میں گرفتار یہی مزدور طبقہ ہے۔ مِل مالکان نہیں ملوں کے مزدور بیکار ہوئے ہیں کارخانہ اگر کسی وجہ سے بند بھی ہو جائے تو کارخانے کے مالک کی زندگی تو رواں دواں رہتی ہے۔ صرف مزدور کی زندگی رْک جاتی ہے کارخانہ داروں کے بارے میں کبھی کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ساری قانون شکنی مزدوروں کے معاملات میں ہوتی ہے۔ اناج کو مختلف صورتوں میں ڈھالنے والے کارخانے میں کام کرنے والا مزدور سانس کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے عام اناج سے بھی محروم رہتا ہے۔ کپڑوں کے کارخانے میں کام کرنے والا مزدور لاکھوں گز کپڑا روزانہ تیار کرتا ہے مگر خود صرف تن ڈھانپنے کا لباس رکھتا ہے۔ سائیکلوں کے کارخانوں میں کام کرنے والا مزدور موسموں کی شدت میں بھی گھر سے کارخانے اور کارخانے سے گھر تک پیدل سفر کرتا ہے اور اسی کارخانے کا مالک کروڑوں کی اپنی لگژری گاڑیوں میں مختصر ترین سفر طے کرتا ہے۔گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور ان کے بچے امیروں کے گھروں میں سارا دن مرغن کھانے پکانے میں جوت دئیے جاتے ہیں۔ امیروں کا بس چلے تو وہ ان کھانا پکانے والے ملازموں کی آنکھوں پر چمڑے کی وہ عینکیں چڑھا دیں جو کولہو کے بیل کی آنکھوں پر چڑھا دی جاتی ہیں تاکہ ملازموں کو کام کا احساس بھی نہ ہو اور وہ ان کے مرغن کھانوں کو اپنی بدنظر بھی نہ لگائیں۔ سارا دن کھانے پکانے والے ان ملازموں کو شام کو اپنا بچا کچا کھانا دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے تنخواہ بھی کبھی کبھار ہی وقت پر یا پوری دی جاتی ہے‘ یا پھر مزدوری مانگنے پر اس ملک میں گھروں میں کام کرنے والی بچیاں ججوں کے گھروں سے بدترین تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں‘ یہ ہے ہمارا یوم مئی اور ہمارا مزدور طبقہ
