ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں 

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

اقبال سے بہتر کون جانے گا کہ قادر و عادل نے اس جہاں کو اشرف المخلوقات کے حوالے کیا ہے اور کہہ دیا ہے اسکو حسبِ استطاعت چلاو_¿۔ اسے چلانے کے اصول اور گر بتلا دئیے ہیں۔ مگر تنو مند، طاقتور اور مالدار کمزور اور مجبور کا استحصال کرنے کا خوگر ہے۔ وہ اخلاقیات اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کو بھی طاقِ نسیاں میں رکھ دیتا ہے۔ اسے اپنے زر اور کاروبار سے غرض ہے۔ کمزوروں اور غریبوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی دنیا کی اکثریت بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر صاحبِ ثروت کے در پر ناک رگڑ رہی ہے۔ اور نظام کی ناکامی دیکھیے جو سب سے بڑھ کر مشقت کرتا ہے، جسے محنت کش کہتے ہیں، وہ سب سے زیادہ لاچار، غریب اور بے کس ہے۔ ریاست اگر ماں اور باپ جیسی ہے تو اسکی آنکھیں اور دل تو ہو گا۔ وہ کیسے اپنے لاچار، غریب اور بے کس بچے کو ناقص نظام کے بے رحم شکنجے میں مسلے جانے کے لئے بے یارو مددگار چھوڑ سکتی ہے۔ ملک خداداد میں یومِ مئی پر مزدور کا دیہاڑی کے لئے سرگرداں ہونا نظام کے گلے سڑے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ کھیتوں میں دہقان اور کسان آج بھی بیوی بچوں سمیت گندم کی فصل کو بارش سے بچانے اور بر وقت کاٹنے کے لئے تپتی دھوپ میں مصروفِ عمل ہیں۔ بڑا زمیندار آرام سے چھٹی منا رہا ہے۔ کسان کو علم ہے کہ وہ چھٹی کرے گا تو آئندہ دنوں میں کوئی اسے بھوک سے نہیں بچائے گا۔ لہٰذا وہ کھیت میں موجود ہے۔ زمیندار کو معلوم ہے کہ اسکے پاس سرمایہ ہے تو چھٹی پر ہے۔ اب یہ ریاست و حکومت کہ کندھوں پہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ مزدور اور کسان کو بھی وہ ہی معاشی تحفظ دے جو اہلِ ثروت کو حاصل ہے۔ اسکے بغیر خوشحالی کا خیال عبث ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں