مودی کی انتخابی بڑھکیں

آج وطنِ عزیز کے 26 ویں یومِ تکبیر پر مودی کی انتخابی بڑھکیں سن کر اور ملک کی دگرگوں اقتصادی حالت کو جانچ کر دل وسوسوں سے بھرا پڑا ہے۔ مگر ملک کی ایٹمی ٹیکنالوجی کو مضبوط و محفوظ ہاتھوں میں دیکھ کر یک گونہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ ” اب نہیں کوئی بات خطرے کی”۔

بانیٔ نیوکلیئر پروگرام ذوالفقار علی بھٹو اور بانیٔ میزائل پروگرام محترمہ بینظیر بھٹو کو سلام پیش کرتی ہوں۔
ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی بے شک ہمارا دفاعی حصار ہے اور بھارت کے ساتھ ”امن کی آشا“ رکھنے اور دوستانہ تجارتی تعلقات گلوبل ویلیج کے فلسفے کے تحت استوار کرنے کے خواہش مند ہمارے لبرل طبقات چاہے جتنا بھی اپنا فلسفہ بگھار لیں‘ وہ اس سچائی پر پردہ نہیں ڈال سکتے کہ پاکستان کو اگر بھارت کے توسیع پسندانہ جارحانہ عزائم سے اب تک کسی چیز نے محفوظ رکھا ہوا ہے تو وہ صرف ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کا خوف ہے ورنہ تو ہمیں دولخت کرنے کا موقع ضائع نہ کرنے والا بھارت ہمیں کب کا ہڑپ کر چکا ہوتا۔

بھٹو نے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی، انہوں نے عالمی دباؤ اور دھمکیوں کے باجود پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھایا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی رکھی ہوئی بنیاد کا ہی تسلسل تھا۔

عظیم قائدین کو سلام جن کی وجہ سے پاکستان ایک ذمے دار اور پُرامن جوہری ملک بنا۔

پاکستان کو ایٹمی قوت سے سرفراز و ہمکنار کرنے میں ہماری جن جن قیادتوں اور شخصیات نے مستعد و مخفی کردار ادا کیا ہے‘ ان پر ہم کیوں نہ فخر کریں اور انہیں کیوں نہ اپنا قومی ہیرو قرار دیں۔ بے شک پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی جانب گامزن کرنے کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر پر ہی سجے گا۔ ہمارے انکے ساتھ لاکھ نظریاتی اور سیاسی اختلافات سہی مگر انکے یہ کارنامے تو ہماری تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکے ہیں کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد پڑمردہ ہو کر بیٹھی قوم اور شکست خوردگی کے احساس میں جکڑی افواج پاکستان کو دوبارہ اپنے پاو¿ں پر ذوالفقار علی بھٹو نے ہی کھڑا کیا تھا جنہوں نے 1972ءمیں شملہ جا کر اندراگاندھی کے ساتھ برابری کی سطح پر ڈائیلاگ کئے اور نہ صرف بھارت کی قید میں موجود 90 ہزار کے قریب سپاہِ پاکستان کو ا?زادی دلائی بلکہ 71ءکی جنگ میں بھارت کے قبضے میں جانیوالے پاکستان کے علاقے بھی واگزار کرائے۔ اندراگاندھی کے ساتھ طے پانے والے شملہ معاہدہ میں بے شک بہت سی خامیاں ہیں اور خود بھارت نے اس معاہدے کو پاو¿ں تلے روندا ہے مگر اس معاہدے کے تحت ہی پاکستان کا ہزیمتوں کا سفر ختم ہوا تھا جو 71ءکی جنگ کے نتیجہ میں ہمارے پلّے پڑا تھا۔ 

میں آج کے یوتھیوں کے سامنے تاریخ کا ایک اور ورق پلٹ رہا ہوں۔ یہ 1998ءکی بات ہے اور تاریخ تھی مئی کی اٹھائیس۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان یوتھیوں میں سے 90فیصد اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ نہ انکے ماں باپ نے قومی تاریخ کے ایک روشن پہلو کے بارے میں ان کو کچھ بتایا۔ ذرا کان کھول کر سن لیجئے کہ ایک باغیرت قوم نے ایک باغیرت راستہ اختیار کیا تھا۔

اپنا تبصرہ لکھیں