انتہائی خاموشی کے ساتھ ہدف کے حصول کے لیے یکسو ہو کر ایٹمی دھماکے کے لیے مختلف سائٹس کا دورہ کیا گیا اور آخرکار تمام تر غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑی مقام کو منتخب کر لیا گیا۔ ایٹمی ٹیم کے اہم ارکان دھماکے سے پہلے ہی اس مقام پر پہنچ چکے تھے اور تمام پہلوو¿ں سے جائزہ لینے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے دھماکے کی اجازت طلب کی اور پھر گرین سگنل ملتے ہی بٹن دبا دیا گیا اور اور پاکستان نے بھارتی تین ایٹمی دھماکوں کے جواب میں مسلسل پانچ دھماکے کر کے اپنے ایٹمی قوت ہونے کی سرخروئی حاصل کی۔ پھر خوشی اور انبساط کے جذبات میں نعرہ¿ تکبیر سے چاغی کے پہاڑ لرز اٹھے۔ پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، بچے، بوڑھے، نوجوان مرد و زن دیوانہ وار گھروں سے باہر نکل کر نعرہ¿ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگانے لگے۔ 28 مئی کا سورج ہماری آزادی و خودمختاری کے تحفظ کا ضامن بن کر طلوع ہوا تھا۔
ایٹمی دھماکوں پر پوری دنیا بالعموم اور بھارت بالخصوص سکتے کے عالم میں چلا گیا، اسے یہ گمان ہی نہیں تھا کہ پاکستان بے سر و سامانی کے باوجود اس کے مقابلے کا ایٹمی ملک بن جائے گا۔ وہ جنوبی ایشیا میں خود کو ہی بڑی طاقت سمجھتا تھا اور اس زعم باطل میں مبتلا تھا کہ جنوبی ایشیا کا کوئی ملک بھی اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا لیکن پاکستان کی طرف سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں نے اس کی قیادت کے اوسان خطا کر دیئے، اس کا تکبر اور زعم ہوا ہو گیا اور اسے طاقت کے توازن کے خیال نے ہی عدم توازن سے دوچار کر دیا۔ یہ اس ایٹمی صلاحیت ہی کا اعجاز ہے کہ آج بھارت تمام تر جارحانہ عزائم رکھنے کے باوجود پاکستان کے ساتھ ٹکر لینے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔ 1998ءکے بعد سے آج تک ایسے کئی مواقع آئے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکنے کے واضح امکانات پیدا ہو گئے تھے لیکن پاکستان کی ایٹمی طاقت ہونے کے باعث دوبارہ باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آ سکی۔
