اسلام آباد: اکناف ادبی فورم اور سرائیکی اکیڈمی کے زیراہتمام سرائیکی کے ایوارڈ یافتہ شاعر،ادیب ،دانشور سعید اختر کے چوتھے شعری مجموعے ’’پاراُروار‘‘ کی تقریب پزیرائی اکادمی ادبیات کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی۔ صدارت صاحب اسلوب شاعر خاور احمد نے کی جبکہ مہمان خصوصی اکادمی ادبیات کے ناظم اعلی سلطان ناصر تھے۔ صاحب صدر خاور احمد نے کہا کہ سعید اخترایک بھلا آدمی تھا جو ہر وقت کسی نہ کسی کی بھلائی میں مصروف رہا۔ کتاب کے ہر مصرے میں آپ کو یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ آس پاس، چرند پرند، لوگ دوست بیمار سب کے حوالے سے کچھ نہ کچھ سوچتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور ان ساری باتوں کو اس خوبصورتی سے مادری زبان میں اتنی مٹھاس سے بیان کرتاہے کہ دل کھینچ لیتا ہے۔مہمان خصوصی سلطان ناصر نے کتاب کو نہ صرف سرائیکی زبان اور ثقافت بلکہ مجموعی طور پر پاکستانی ادب کے حوالے سے ایک انتہائی اہم کاوش قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سعید اختر اپنی مٹی سے جڑت رکھنے والی ایک انتہائی توانا اورانتہائی معتبر آواز ہیں۔ انہوں نے جس طرح سے اپنی زبان کے ساتھ جڑی ثقافت کو اس کی لغت کو اس کے بیان کو اس کے ادب کو اس کے سارے ورثے کو سنبھالا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ ڈاکٹر شہاب صفدر نے کہا کہ سعید اختر کی غزل نے سرائیکی ادب کو ذہن دیا ہے۔ اُس نے فکر کو جذبے کی آنچ پر رکھ کر شعر بنایا ہے۔ کتاب کے ایک ایک مصرعے اور ایک ایک سطر پر داد دی جاسکتی ہے کہ شاعر کا بالغ شعور ہر جگہ لو دے رہا ہے۔ پار اُروار میں مصوری اور شاعری کی حدیں ایک دوسرے سے ایسے مل گئی ہیں کہ لگتا ہے شعر پڑھ نہیں رہے تصویر دیکھ رہے ہیں۔وفا چشتی نے کہا کہ اس کتاب کی خاص بات اس کی خالص، بامحاورہ اور روزمرہ کی گم سرائیکی زبان ہے۔ انہوں نے ایسی ڈکشن استعمال کی ہے کہ پار اُروار کے لفظ لفظ کو روشنی اور دوام حاصل ہوگا۔ جہانگیر مخلص نے کتاب کی غزلوں کو سرائیکی شاعری میں خوبصورت اضافہ قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ سعید اختر کی جو محبت اپنے وسیب،ثقافت،زمین اور اپنے گم شدہ ترکے کے ساتھ تھی وہ ساری محبتیں ان کی غزلوں میں ایسے ابھر کر سامنے آئی ہیں کہ انہیں نمایاں کر گئی ہیں۔ سینئر صحافی افتخار شیرازی نے کہا کہ سعید اختر ایک فرد نہیں بلکہ تحریک کا نام ہے۔ اس نے سرائیکی سمجھنے والوں کو ایک سوچ دی ہے آگے بڑھنے کی،متحد ہونے کی،ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور امید کے ساتھ جینے کی۔اگرچہ اس کا تعلق پسماندہ علاقے سے تھا لیکن وہ ذہنی اعتبار سے بڑا امیر ادمی تھا۔ وہ تہذیبوں کی ،زبانوں کی اہمیت کو سمجھتا ہےاس کی شاعری میں یہ سوچ بڑی بھرپور انداز میں نظر آتی ہے۔راشدہ ماہین ملک کا کہنا تھا کہ سچی شاعری ہر دور کی عکاس ہوتی ہے۔ پار اُروار کی غزلیں اس معیار پر پورا اترتی ہیں۔ سرائیکی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال نے کہا کہ سعید اختر ایسے انسان تھے جن سے آپ ایک بار مل لیں تو انہیں بھول نہیں سکتے۔ وہ انسان دوست ،ادب دوست تھے۔ وہ اپنے وسیب کے ساتھ محبت کرنے والا شخص تھا۔ وہ روہی تھل اور دامان کے ساتھ ایک ایسا رشتہ قائم کر گیا جو آج بھی اتنا ہی مضبوط ہے ۔ چولستان سے آئے ہوئے لوک فنکار موہن بھگت، سعید اختر کے فرزند رامش علی نے ان کا کلام ساز و آواز کے ساتھ پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ اکناف ادبی فورم کے صدر کاشف رحمن کاشف نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اکادمی ادبیات کے ناظم اعلی سے درخواست کی کہ اکادمی کے سلسلے معمار ادب کے حوالے سے سعید اختر پر بھی کام کرایا جائے۔ تقریب کی نظامت کے فرائض شاہد دھریجہ اور ڈاکٹر سعدیہ کمال نے انجام دیئے۔
