محمد اعجاز الحق
صدر پاکستان مسلم لیگ(ضیاء الحق شہید)
پیشہ سپہ گری سے منسلک ہونے کے روز اول ہی سے ہر آفیسر خواہ اس کا تعلق بری فضائیہ اور بحری سیفوج سے ہو اس کے ذہن پر یہ بات نقش کردی جاتی ہے کہ اس نے اپنی جان دے کر بھی اپنے قومی علم کو بلند رکھنا ہے اور ملک کا دفاع کرنا ہے ہر روز تقریباتی طور پر صبح سویرے منہ اندھیرے قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں کہ اہل عساکر میں اپنے وطن سے محبت اور یگانگت کا جذبہ پیدا کیا جائے“1950 میں جنرل محمد ضیاء الحق نے گائیڈ کیولری میں شمولیت اختیار کی‘ دس سال تک اسی یونٹ میں رہے‘1955 کمانڈ اینڈ ستاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی‘ اسی کالج میں انسٹرکٹر بھی رہے‘ انہوں نے رسالہ کی کی ایک کور‘ ایک آرمڈ بریگیڈ‘ ایک آرمز ڈویژن‘ اور ایک کور کی کمانڈ کی‘ جنرل ضیاء الحق جنرل گل حسن کے سٹاف آفیسر بھی رہے‘س52 سال کی عمر میں آرمی چیف مقرر ہوئے‘ وہ اعلی کاکردگی کے دلداہ تھے اور بہترین پریزنٹیشن کے تو گویا شیدائی تھے‘ بے حد ملن سار‘ خوش طبع‘ مہمان نواز تھے‘ ہر کام میں حد درجہ نفاست مانگتے تھے‘ اپنے ملٹری سیکرٹری اور دیگر سٹاف کا تقرر بہت دیکھ بھال کر کرتیے اور پھر انہیں اپنے گھر کا فرد ہی سمجھتے تھے‘ فطرت نے انہیں عجیب قوت برداشت سے نوازا تھا‘ وہ اپنے پرانے گھریلو ملازمین کو تبدیل کرنے میں کبھی راضی نہیں ہوتے تھے‘ ساری ساری رات جاگتے مگر کبھی ان کے چہرے پر تھکاوٹ نہیں دیکھی‘ البتہ سفر میں اپنی نیند خوب پوری کرتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے‘ ان کے سامنے ایک مشن تھا انہوں نے ملت اسلامیہ کے استحکام کے لیے بہت محنت کی‘ مجھے اپنے والد صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو بطور والد اور بطور حکمران دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ وہ ایک کشادہ ظرف انسان تھے ان کی ذاتی زندگی کبھی بھی کسی قسم کے سیکنڈل میں ملوث نہیں رہی تبلیغ اسلام ان کے ایمان کا حصہ تھا اور ان کی آرزو تھی کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے‘ آزاد خیالی اور لبرل ازم‘ مادر پدر آزادی کو مغربی معاشرے کے اثرات سے ملک کو بچانا چاہتے تھے انہیں یقین تھا کہ مسلم ممالک صرف اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ جنرل محمد ضیاء الحق کی شخصیت ان کے مداحوں اور ان کے نقادوں کی نظر میں ایک الگ الگ رخ لیے ہوئے ہے وہ ہر لحاظ سے ایک طاقت ور حکمران رہے مگرکوئی کے دامن پر کسی قسم کے کرپشن کے داغ تلاش نہیں کرسکا‘1979 میں انہیں ملٹری کونسل نے انہیں نشان امتیاز (ملٹری) دینے کا فیصلہ کیا مگر انہوں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میری کاکردگی کے حسن اور قبیح کا فیصلہ تاریخ اور آئندہ آنے والی نسل پر چھوڑ دیجیے‘ وہ پانچ جولائی1977 سے 17 اگست 1988 تک ملک کے حکمران رہے‘17 اگست ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا‘ اس روز ان کے طیارے کا حادثہ ہوا اور وردی میں وہ اس حادثے میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے‘17 اگست کو وہ معمول کے مطابق تیار ہوئے ان کے طیارے نے صبح آٹھ بج کر اکیس منٹ پر چک لالہ ائربیس سے پرواز کی‘ اور نو بج کر ستائیس منٹ پر بہاولپور کے ہوائی اڈے پر بحفاظت اتر گیا‘ روانگی سے قبل چک لالہ ائربیس پر طیارے کی مکمل دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کی گئی‘ اور اسے اڑا کر ٹسٹ فلائٹ بھی کی گئی تھی‘ امریکی ٹینک کا معائنہ کرنے کے بعد وہ تقریباً ساڑھے تین بجے واپسی کے لیے طیارے میں سوار ہوئے‘ اسی ااثناء میں آموں کے دو کریٹ اور ایک تحفے کا ڈبہ لایا گیا‘ جس میں طیاروں کے یا امریکی ٹینک کے ماڈل تھے‘ سی130 تین بج کر چھیالیس منٹ پر زمین سے اڑا اور چند منٹوں میں جب ان کا طیارہ دریائے ستلج کے اوپر پہنچا تو اس وقت طیارہ کم بلندی پر تھا‘ اس وقت طیارہ لڑکھڑایا‘ طیارے کا رخ نیچے کی طرف ہوا‘ پھراوپر اٹھا‘ ہچکولے کھاتا ہوا سیدھا زمین پر گرا‘ تین بج کر اکیاون منٹ پر طیارہ گرا اور اس کے ساتھ اس میں آگ لگ گئی‘ جائے حادثہ بہاول پور ہوائی اڈے سے تقریباً نو کلو میٹر دور شمال مغرب کی جانب ہے‘ طیارے کی کاکردگی حادثے سے تقریباً دو اڑھائی منٹ قبل ہی خراب ہوگئی تھی‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ زمین پر آن گرا‘ حادثے کے وقت موسم بھی صاف تھا اور حد نگاہ بھی پانچ کلو میٹر تک تھی موسم کا حادثے سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ حادثے کی تحقیقات کے لیے اس وقت ائر کموڈور عباس کی سربراہی میں ایک بورڈ بنایا گیا‘ جس کی تحقیقات میں طیارے کو باہر سے کسی نے نشانہ نہیں بنایا‘ جو کچھ بھی ہوا جہاز کے اندر سے ہی ہوا‘ جس طرح جہاز گرنے سے قبل اوپر نیچے ہوا اور لڑ کھڑایا اس سے اندازہ یہی کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ پائلٹس کے ساتھ کوئی طبی صحت کامعاملہ ہوا ہو‘ طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے جسٹس شفیع کمشن بھی بنایا گیا تھا‘ یہ سب کچھ ایک واقعاتی کہانی کا ہی مواد ہے‘ ہم بطور لواحقین آج تک مطمئن نہیں ہوسکے کہ طیارہ کیوں‘ کیسے گرا‘ اور اس حادثے کے اصل محرکات کیا تھے‘ سازش کہاں تیار ہوئی‘ کون اس میں ملوث رہا‘ کس نے کس کے کہنے پر منصوبہ بندی کی‘ اس حادثے کا فائدہ کس کو پہنچا‘ مجھے کچھ ذیادہ نہیں کہنا بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق ملک میں کسی سیاسی سیٹ اپ کی تیاری کر رہے تھے‘ غلام مصطفی جتوئی بھی ان کے رابطے میں تھے‘ بلکہ حامد ناصر چٹھہ آج وہ الحمداللہ حیات ہیں‘ وہ ضرور اس بات کی گواہی دیں گے کہ شہادت سے تین چار روز قبل 14 اگست کو جب وہ یوم آزادی کی تقریب میں بطور اسپیکر شریک تھے تو اس وقت بھی صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے ان سے اگلے ہفتے اہم ملاقات کے لیے ملنا تھا‘ بہر حال یہ موقع نہیں ملا طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا‘ ہوسکتا ہے کہ اگر یہ حادثہ نہ ہوتا وہ اپنی ٹیم میں بھی کچھ تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے‘ جہاں تک کسی سازش کا تعلق ہے اس کا تو علم نہیں‘ بہر حال جنیوا معاہدہ بھی ہوچکا تھا‘ ا مریکہ‘ بھارت اور روس بھی ناراض تھے‘صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور شہدائے بہاولپور کا آج36 واں یوم شہادت ہے‘ یہ ساڑھے تین عشروں کا وقت کیسے گزرا‘ اور کس کرب سے ہم دوچار رہے ہیں‘ یہ المیہ سانحہ سے بڑھ کر ہے کہ آج بھی ہم اور شہید صدر کے لاکھوں چاہنے والے ان حقائق کی تلاش میں ہے جو صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے C-130 کے حادثے کا سبب بنے‘ اس حادثے کو اگر پاکستان کے حقیقی ریاستی مفادات کے محافظ کے قتل سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہوگا‘ ہر سال 17 اگست کو جب بھی شہید صدر کے چاہنے والوں سے ملاقات ہوتی ہے کہ تو مجھے ان کے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ یہ حادثہ دراصل پاکستان کے حقیقی ریاستی مفادات کے محافظ کا قتل نہیں بلکہ ریاستی مفادات کو گہری منصوبہ بندی کے ذریعے ایک مکروہ سازش کو کامیاب بنایا گیا تھا‘ پاکستان کی پاکیزہ سرزمین ایک روز ضرور یہ راز اگلے گی اور حقائق آشکارا ہوجائیں گے ابھی شہید صدر کے چاہنے والوں کے ضبط کا امتحان ختم نہیں ہوا‘یہ تمام کے تمام سوالات ہم بھی پوچ رہے ہیں اور آئندہ نسلیں بھی پوچھیں گی‘ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں پہلی بار پاکستان میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی کوشش ہوئی‘ صلوۃ اور زکوۃ کا نظام قائم ہوا‘ احترام رمضان المبارک قوانین بنائے گئے‘ ملک میں اسلامی بنکاری نظام لایا گیا‘ سرکاری دفاتر میں ظہر کی نماز کا اہتمام کیا جانے لگا‘ ملت اسلامیہ کا اتحاد ملک کی خارجہ پالیسی کا اہم محور اور مرکز بنا“جنرل ضیاء الحق جب بہ امر مجبوری اقتدار میں آئے تو اس وقت پاکستان کے ارد گرد کے حالات بھی نہائت غیر معمولی تھے‘ بھارت ایٹمی دھماکہ کرچکا تھا‘ پاکستان میں اس جانب پیش رفت کر رہا تھا‘ افغانستان میں روسی جارحیت ہوچکی تھی‘ اور اس کی فوج افغانستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنے کی اپنی منصوبہ بندی کو آخری شکل دے رہی تھی‘ پاکستان میں سیاسی حالات آئینی بحران کی وجہ سے خراب تھے‘ مشرقی پاکستان کو الگ ہوئے محض چھ سات سال کا عرصہ ہوا تھا‘ ملک ایک مشکل صورت حال میں گھرا ہوا تھا‘افغانستان ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ جس کے معروضی حالات کا پاکستان پر اثر انداز ہونا لازمی امر ہے۔ 1979ء میں افغانستان پر روسی جارحیت نے پاکستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کر دیا تھا 71ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بلکہ اس سے بھی پہلے روس اور بھارت میں دوستی کے کئی معاہدے ہوئے اور محبت کی پینگیں بڑھیں۔ ادھر امریکہ کو تشویش تھی کہ بھارت کو مکمل طور پر روس کی گود میں چلے جانے سے روکا جائے جب جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرکے طور پر…… اقتدار سنبھالا تو امریکہ سے پاکستان کے حالات کافی کشیدہ اور…… پیجیدہ تھے۔ ایسے میں روسی جارحیت پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھی اور اگر روس افغانستان میں اپنے عزائم میں کامیاب اور قدم جما لیتا تو پھر لازمی طورپر اس کی اگلی مہم جوئی کا نشانہ پاکستان ہوتا۔کیونکہ یہاں صوبہ سرحد(KPK)اور بلوچستان میں بھارت کی مدد سے قوم پرستی کے نام پر علیحدگی کی تحریکیں بھی سر اُٹھا چکی تھیں۔روسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں افغانوں کی مدد اور 35 لاکھ سے زائد مہاجرین کو خوش دلی سے پناہ دے کر جنرل ضیاء الحق نے جس ملی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور یہ ذمہ داری جس احسن طریقے سے نبھائی اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے اور اس حوالے سے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کو ہمیشہ یاد رکھا جائے…… گا افغان جنگ میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار کے کردار، حکمت عملی، سیاسی اور حربی دانش مندی، تدبر اور تزویراتی منصوبہ بندی کو کبھی بھلایا نہ جائے گا۔ انہوں نے امریکہ نے مونگ پھلی نہیں لی بلکہ قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر سفارتی تعلقات استوار کیے‘ اور کبھی امریکیوں سے مرعوب نہیں ہوئے‘ ایک بار ایسا ہوا کہ انہیں آگاہ کیا گیا کہ اسلام آباد سے امریکی سفیر پشاور افغان مہاجرین کے کیمپوں کے دورہ کے لیے جارہے ہیں‘ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے حکم دیا کہ انہیں اچھی طرح بتا دیا جائے کہ وہ واپس آسلام آباد آئیں‘ اگر وہ اٹک کا پل کراس کر جائیں تو انہیں کہہ دیا جائے کہ وہ پشاور سے واپس اسلام آباد نہیں آئیں گے بلکہ وہیں سے کابل چلے جائیں اور کابل سے امریکہ اپنے ملک چلے جائیں‘ یہ پیغام مل جانے پر امریکی سفیر پشاور نہیں گئے تھے‘ اسی وقت واپس اسلام آباد آگئے تھے‘
شہید صدر نے بطور عاشق رسولﷺ‘ تحفظ ختم نبوت ﷺ کے محافظ‘ فوجی سپہ سالار، ایک منجھے ہوئے سیاست دان، مدبر اور انسان دوست مسلمان سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں‘ ان کے دور میں امریکہ کے تحظات کے باوجود پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام کامیابی سے چلایا اور حکمت عملی ایسی کامیاب رہی کہ امریکی صدر پاکستان کے لیے امداد دیتے وقت ہر سال امریکی کاگریس کی رائے ویٹو کرتے رہے‘ اور ہم اپنا کام کرتے رہے‘ دنیا نے انہیں مستقل مزاجی اور مکمل یک سوئی سے ایک بڑی سپر پاور کے مقابلے میں افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا یہ سب کچھ انہوں نے اس وقت کیا جب پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیرمستحکم تھا اور خطے کی معروضی صورتِ حال کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان ایٹمی قوت کی شناخت بھی نہ رکھتا تھا۔ افغان قوم کو روس کے پنجہ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنے کی روسی خواہش کے سامنے بند باندھنابڑا کارنامہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے اس جنگ میں فوجی کمانڈروں کو اس کا کریڈٹ نہ دینا نا انصافی ہو گی۔ افغانستان کی روسی جارحیت سے آزادی موجودہ عہد کا ایسا لا زوال واقعہ ہے جس نے احیائے اسلام کی تحریکوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ 1977ء میں اپوزیشن کی اپیل پر عوام نے بھٹو حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی تھی، اس کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا جنرل ضیاء الحق کو ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تو تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ کہ لوگوں نے اس تبدیلی پر مٹھائیاں بانٹیں کہ سوجی اور چینی کے گودام خالی ہو گئے۔1979ء میں جب اشتراکی افواج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہیے۔ افغانستان کی صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ افغان قوم نے بیرونی حملہ آوروں کو کبھی قبول نہیں کیا، افغان جنگجو قوم ہے۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف برسر پیکار رہتی آئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت آیا کہ جب افغان قوم کو بیرونی حملہ آوروں سے نجات نصیب ہوئی تو یہ قوم آپس میں ہی میدان جنگ سجا کر بیٹھ گئی اور مختلف قبائل یا گروہ آپس میں لڑتے رہے۔جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں کو افغان مجاہدین تک رسائی سے روکنا افغان پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ افغانستان میں ہزاروں کلومیٹر تک پھیلے محاذ جنگ کی نگرانی آئی ایس آئی کی اہم ذمہ داری تھی۔ پاکستان ہی افغانستان میں مجاہدین تک خوراک اور اسلحہ پہنچاتا تھا۔ مجاہدین کی ضرورت پیٹ کے لیے روٹی اور بندوق کیلیے گولی تھی۔جو کمک کی صورت پاکستان انہیں فراہم کرتا رہا۔ امریکیوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے کیے جاتے وہ پاکستان ہی طے کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق اپنی جہادی پالیسیوں کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے خصوصاً عالم عرب میں وہ ایک مسلمان جرنیل ہونے کے باعث ہیرو کے طورپرپسندکییجاتیاورعام لوگ انسے والہانہ محبت بھرے جذبات رکھتے تھے۔جنرل ضیاء الحق کی افغان جنگ میں مدد اور پشت پناہی کی پالیسی نے امریکہ اور پاکستان کو قریب کر دیا تھا اور وہ کشیدہ صورت حال ماضی کا قصہ بن گئی جو 1977ء میں اُن کے زمام اقتدار سنبھالتے وقت تھی۔ اب بھارت تشویش میں مبتلا تھا اور پاکستان جنرل صاحب کی افغان پالیسی کے باعث عالمی منظرنامے پر چھایا ہوا تھا بھارت کے بے پناہ شور شرابے کے باوجود پاکستان نے اپنے معاملہ فہم زیرک اور حرب و ضرب کے ماہر سپہ سالار جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اپنے ایٹمی پروگرام کو رفتہ رفتہ آگے بڑھایا۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی اُفق پر جنرل محمد ضیاء الحق کی قیادت کا چرچا تھا اور امریکہ سمیت نہ صرف مغربی ممالک بلکہ اُمت مسلمہ کے تقریباً سبھی عرب حکمراں بھی پاکستان کے دم ساز اور ہم نوا تھے۔ ایسے میں کسی نے بھارت کی آہ و بکا، واویلے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے۔ بھارت روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہا جبکہ جنرل ضیاء الحق اپنے دھیمے لہجے اور پروقار انداز میں دنیا کے شاطر اور بزعم خود، خود کو عقلِ ُکل سمجھنے والے بڑے بڑے دماغوں سے اپنی مدبرانہ سوچ اور صلاحیت سے اپنے مطلب کا کام نکالتے رہے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے رہے۔ 1974 میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد یہ از حد ضروری تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کرے۔ لہٰذا جنرل محمد ضیاء الحق نے نہایت تحمل، بردباری اور حکمت عملی سے پاکستان کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کر کے اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کر دیا جو کہ ہر پاکستانی کا مطمع نظر تھا۔افغان مجاہدین کے تمام گروپس اور تمام تنظیموں کی قیادت انہیں اپنا ہیرو اور رہنما تسلیم کرتی تھی۔ افغانستان کے گلی کوچوں، مجاہدین کے مورچوں، چیک پوسٹوں کے در و دیوار ”ضیاء الحق“ کی تصویروں سے سجے رہتے تھے اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ افغانستان کے بارے ان کا موقف اور پالیسی بہت واضح اور دو ٹوک تھی اور اس سلسلے میں وہ روس کی کوئی بات سنتے تھے اور نہ بھارت کو ہی خاطر میں لاتے تھے۔ کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی تو ان کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔صدر ضیاء الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس ”کابل“ کو فتح کرلیتاتوآج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کیلیے قیامِ پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں 17اگست 1988ء کے شہداء بہاول پور نے اپنے دل رنگ لہو سے ارضِ پاکستان کی آب یاری کی۔
خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را
آج سے تقریباً 37 سال قبل جنرل ضیاء الحق اور ان کے قریبی رفقاء کار اور ہم خیال ساتھیوں کو جن میں جنرل اختر عبدالرحمن بھی شامل تھے، ایک گہری سازش کے ذریعے پہلے سے طے شدہ فضائی حادثے میں شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی عسکری قیادت کو منظر سے ہٹا دینا بہت بڑا قومی سانحہ تھا اس سازش کے تیار کرنے والے دماغوں نے اس بات کا خاص طور پر انتظام کیا تھا کہ وہ عسکری قیادت جو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر افغان جنگ لڑ رہی تھی اور جو افغان پالیسی چلا رہی تھی انہیں قومی منظر نامے سے ہٹا دیا جائے۔ جنرل اختر عبدالرحمان کو بھی اس طیارے میں ایک سازش کے تحت ہی سوار کرایا گیا تھا یہ سب کچھ ملٹری کے قواعد و ضوابط کے خلاف عمل تھا کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں جرنیلوں کا ایک ساتھ ایک ہی جہاز میں سوار ہونا خلاف ضابطہ تھا۔ اس وقت کے امریکی ترجمان ولسن صدر محمد ضیاء الحق کو اپنے قومی ہیرو قرار دیا تھا‘ وہ لکھتا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اب تک دنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں میں بہادر ترین انسان تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے روس کے شدید اور بے انتہا دباؤ کی مزاحمت کی جو روس نے افغان مجاہدین کا ساتھ چھوڑنے کے لیے اُن پر ڈالا گیا۔ اُنہوں نے روسی ریچھ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس حدتک مقابلہ کیا کہ اُس روسی ریچھ کو آنکھ جھپکنا پڑی۔سی آئی اے کا مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سویت یونین کو شکست دینے کیلیے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کو ئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیں تھی۔ نہ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ مغرب خصوصاً امریکہ کو اُس دن سے ڈرنا چاہیے جب پاکستانی فوج میں اتفاقاً جنرل ضیاء الحق سے ملتا جلتا کوئی اور جنرل آ جائے بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سوویت یونین نے ایک اور تباہ کن فیصلہ کیا اُس نے جنگ جیتنے کے لیے ایک لاکھ فوجیوں کو اس کے برعکس رکھا جب وہ1968میں چیکوسلواکیہ میں گیا تھا۔ اُ س نے ڈیڑھ لاکھ مردوں کا استعمال کیا۔ اس میں بہت سی چیزوں کے ساتھ ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحد کو بند نہیں کر سکتے تھے ضیاء الحق نے ان مجاہدین کو قیادت فراہم کی۔ اور کامیاب حکمتِ عملی سے جنگ کو آگے بڑھایا۔ اگر یہ کسی کی بھی جنگ تھی تو یہ جنگ تھی ضیاء الحق کی۔ ضیاء الحق وہ شخص تھے انہوں نے1980 کی دہائی میں اس جنگ کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا وہ فیصلہ کن فیصلہ تھا کہ مجاہدین کیسے جنگ کو دریائے آمو کو پار کر کے سویت وسطی ایشیا میں لے جائیں گے۔ جنرل ضیاء الحق نے ہی فیصلہ کیا کہ کس وقت جنگ میں ا سٹنگر مزائل کا استعمال کریں گے۔ آپ کے خیال میں کیا یہ جنگ چارلی ولسن کی جنگ تھی؟ ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف اور صرف ضیاء الحق کی جنگ تھی ضیاء الحق کے شخصی کردار کے محاصل میں یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ نے اُنہیں وسیع القلبی کی نعمت سے نوازا تھا۔ اس کے ساتھ برداشت، استقامت، اور صبر بھی اُن کی طبیعت میں بدرجہ اتم موجود تھا جنرل ضیاء الحق اپنے تمام دکھ درد اپنے سینے میں سمیٹنے اور سنبھالنے کا ہنر جانتے تھے اُنہوں نے کبھی کسی سے کسی کے متعلق کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کی تھی
صلہ ء شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ