ایئرپورٹ سوسائٹی کبھی ایک خواب تھی، جہاں لوگ اپنی زندگی سکون کے ساتھ گزار سکیں۔ لیکن آج یہ جگہ مسائل کی گہری دلدل میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہاں کے رہائشی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، امن و امان کے فقدان، اور انتظامیہ کی نااہلی سے سخت متاثر ہیں۔
یہاں کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک قبرستان کی عدم موجودگی ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک رہائشی سوسائٹی میں ایسی بنیادی سہولت کا فقدان ہوگا۔ یہاں کے رہنے والوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر وہ دنیا سے چلے جائیں تو انہیں دفن کرنے کے لیے جگہ بھی میسر نہیں ہوگی۔ قبرستان کے بجائے گرین پارکس کی زمینوں کو پلاٹوں میں بیچ دیا گیا، جس نے انتظامیہ کی نااہلی اور حرص کو عیاں کر دیا ہے۔
ایئرپورٹ سوسائٹی کے رہائشی پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لیے ترس رہے ہیں۔ ہر گھر کو مہینے کے 10 سے 15 ہزار روپے خرچ کر کے پانی خریدنا پڑتا ہے۔ پانی کی فراہمی کے لیے ٹینکر مافیا سرگرم ہے، جن کے ڈرائیور اکثر غیر تربیت یافتہ اور اناڑی ہیں، جو لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ محترمہ بینش فاطمہ، ٹریفک آفیسر راولپنڈی، سے درخواست ہے کہ ان ٹینکرز کو ریگولرائز کیا جائے اور ان کی چیکنگ کو یقینی بنایا جائے۔
یہاں سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ امن و امان کی ابتر حالت ہے۔ ڈاکے روز کا معمول بن چکے ہیں، اور ہر گھر اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ پولیس کی کارکردگی نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ ان پر مجرموں کے ساتھ تعلقات کے الزامات بھی ہیں۔
ایئرپورٹ سوسائٹی میں پیش آنے والا ایک افسوسناک واقعہ، جس میں ایک نوجوان کو ڈاکوؤں نے قتل کر دیا، ہمارے نظام کی ناکامی کو واضح کرتا ہے۔ اس واقعے کے بعد محسن نقوی نے پولیس کو حکم دیا کہ مجرموں کو پکڑ کر عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے، لیکن چند دنوں بعد اس نوجوان کی لاش برآمد ہوئی، یعنی کوئی وزیر داخلہ یا وزیراعلی کہے تو پولیس ایک دو روز میں ہی قاتل اور ڈاکو کی لاش لا کے دے دیتی ہے تو کیا ابھی یہاں پہ سردار رؤف کے گھر ڈاکہ پڑا دو سال پہلے میرے گھر میں ڈاکہ پڑا اور بے شمار لوگوں کے گھروں میں چوری ڈاکے پڑ رہے ہیں تو کیا ہم وزیر داخلہ محسن نقوی کو گزارش کریں کہ وہ ائیں ا کے ہمارے ڈاکوؤں کو پکڑوائیں یا ان کو ماورائے عدالت قتل کروائیں۔راولپنڈی کے سب سے بڑے مافیا جو ہیں یہاں پہ سوسائٹی کو کھا گئے ہیں کم از کم 20 22 سال سے تو میں رہ رہا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم صومالیہ کے کسی علاقے میں رہ رہے ہیں یا یوگنڈا میں رہتے ہیں یہاں پہ انسانوں کی کوئی قدر رکھی قیمت نہیں ہے
کالی ٹینکی میں یہ افسروں کا ٹھکانا ہے کواپریٹرو پہ افسر وہاں بیٹھتے ہیں سب سے زیادہ مال حرام کمانے والے کالی ٹینکی کے نیچے بیٹھتے ہیں اور ان کے ٹوڈی ہوتے ہیں یہ بالکل اس سوسائٹی کا حال وہی ہے جو پاکستان کا حال ہے
یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر محسن نقوی جیسے بااثر شخصیات کی موجودگی کے باوجود انصاف ممکن نہیں ہو سکتا تو ایک عام شہری کے لیے کیا امید باقی رہ جاتی ہے؟ پولیس مجرموں کو پکڑنے میں ناکام ہے، لیکن اگر کوئی شخص معمولی جرم میں ملوث ہو تو فوراً کارروائی کی جاتی ہے۔مریم نواز صاحبہ سے میری درخواست ہے کہ اپ کے والد نے جب میں جدہ جیل میں تھا اور اپ کے لیے جیل میں تھا تو انہوں نے کہا تو چوہدری صاحب میرے لیے اپ نے بہت تکلیف اٹھائی ہے اور جب 2013 میں بنے تو کہنے لگے بتائیے میں چوسہ ہو اپ کی کیا خدمت کر سکو
خدارا بس یہی خدمت ہے کہ ہمیں قبرستان دے دیا جائے سیکیورٹی کا بندوبست کیا جائے اور اس ایئرپورٹ سوسائٹی کو لاوارث نہ سمجھا جائے یا یہ ار ڈی اے کے اندر کی جائے اور پھر ہم ٹیکس بھی دیں ادھر یہ مسئلہ ہے کہ ٹیکس بھی لیتے ہیں اور کوئی ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا جاتا کہ کیونکہ سوسائٹیز کو اپریٹو ہوتی ہیں ان کے لیے گورنمنٹ فنڈ نہیں دیتی تو اگر فنڈ نہیں دیتی تو فنڈ لیتی کیوں ہے؟
یہاں کے رہائشی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو چکے ہیں اور اپنے گھروں کو کرائے پر دے دیا ہے۔ لیکن ان مسائل کا حل نقل مکانی نہیں بلکہ انتظامیہ اور حکومت کی مداخلت ہے۔
یہاں کے رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ ایئرپورٹ سوسائٹی کے مسائل کا فوری حل نکالا جائے۔ قبرستان کے لیے جگہ فراہم کی جائے، پانی کے بحران کو ختم کیا جائے، اور امن و امان کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
یہاں کے رہائشی سوال کرتے ہیں کہ اگر دیگر سوسائٹیز میں چوہدری نثار جیسے لوگوں نے بڑے قبرستان فراہم کیے ہیں تو ایئرپورٹ سوسائٹی کے لوگ کیوں اس حق سے محروم ہیں؟ انتظامیہ کو اپنی ترجیحات درست کرنی ہوں گی اور ان مسائل کو فوری طور پر حل کرنا ہو گا
ایئرپورٹ سوسائٹی کے مسائل کو نظر انداز کرنا کسی صورت مناسب نہیں۔ یہ صرف ایک علاقے کے مسائل نہیں بلکہ ہماری مجموعی سماجی بے حسی اور حکومتی ناکامی کا عکس ہیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو ان مسائل پر توجہ دے کر شہریوں کو سکون فراہم کرنا ہوگا۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ علاقے کے رہائشیوں کے لیے مزید مشکلات اور مایوسی کا باعث بنے گا۔
