پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر ممبر‘ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ایف جی ای ایچ اے‘ آئی ای اے اے کے سیکرٹری اطلاعات و نشریات‘ کمیٹی برائے سی ڈی اے افیئر‘ ممبر ایکشن کمشن فیڈریشن آف رئیلٹرزپاکستان اسرار الحق مشوانی سے انٹرویو

س…… آپ تجارتی تنظیموں کے متعدد اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں‘ پاکسان میں کاروباری طبقہ آج کل کن مشکلات کا شکار ہے اور ملک کو معاشی مشکل سے باہر نکالنے کے حکومتی دعوی کیسے ہیں
ج…… آپ کے سوال کا مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘ لہذا ہم بھی شجر سے پیوستہ ہیں‘ اور دیکھ رہے ہیں کہ کب مشکل دن ختم ہوں گے‘ رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو جس قدر نقصان پہنچا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘ کچھ امید لائی ہے حکومتنے بہتری کی دیکھتے ہیں حکمت کیا کرتی ہے؟ملکی ترقی کے لیے ٹیکس ریفارمز‘ اور صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے نرخ کم ہونے تک مسائل حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے‘ ٹیکسز نے تو مل کے رئیل اسٹیٹ بزنس کو بھی وینٹیلیٹر پر پہنچا دیا ہے‘ امید دلائی جاتی ہے کہ حکومت کچھ بہتری لائے گی ہمیں بھی امید ہے کہ اچھے دن آئیں گے سو ہم بھی انتظار کر رہے ہیں کہا جارہا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ٹیرف کی ری بیسنگ کا اطلاق یکم جنوری 2025 سے کرنے کی ہدایت کر دی ہے، پاور ڈویژن پالیسی گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کیلئے نیپرا سے رجوع کرے گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نیشنل فوڈ سیفٹی پلانٹ ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کیلئے فنڈز کی منظوری دی گئی ہے اسٹیل ملز ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے 93 کروڑکی گرانٹ منظور کی گئی ہے اچھی بات ہے تاہم ملک میں بزنس چلنا چاہیے ہم بزنس کیا ٹھیک کرنا ہے اپنے طلبہ کے لیے کسی بھی سطح پر بہتر امتحان کا نظام نہیں لاسکے‘ زندگی کے ہر شعبے میں پریشان کب حالات ہیں اب دیکھیں میڈیکل کالجز میں فیسوں اور معیار و شکایت بڑھ رہی ہیں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی جانب سے طلبہ سے غیر منظور شدہ اور اضافی فیسوں کی وصولی کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔بعض کالجز نے پی ایم ڈی سی کی منظوری کے بغیر فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں پانچ سالہ ایم بی بی ایس پروگرام کی مجموعی فیس ڈیڑھ کروڑ روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔وزیرِ اعظم نے طلبہ اور والدین کی اپیلوں کا نوٹس لیتے ہوئے میڈیکل ایجوکیشن کے مسائل پر غور کرنے کے لیے 25 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے‘ جب بھی مسلۂ ”حل“ کرنا ہوتا ہے کمیٹی بنا دی جاتی ہے
سوال…… آپ کافی مایوس دکھائی دے رہے ہیں
جواب…… نہیں ایسی بات نہیں لیکن جو حقائق ہیں وہ تو ہیں‘ ان سے کیسے جان چھڑائیں‘ ابھی آپ دیکھیں کہ آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آوٹ لک رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی تین فیصد رہنے کا امکان ہے جب کہ رواں مالی سال حکومت کا معاشی ترقی کا مقرر کردہ ہدف 3.6 فیصد ہے، آئندہ مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی 4 فیصد تک جانے کا امکان ہے‘ اگر ہم دوسرے ملکوں کو دیکھیں تو رواں مالی سال امریکا کی معاشی ترقی 2.7 فیصد اور چین کی معاشی ترقی 4.6 فیصد رہنے کا امکان ہے‘برطانیہ کی معاشی ترقی 1.6 فیصد رہنے کاامکان ہے‘ لیکن پاکستان کی خوشحالی اور ترقی صنعتکار اور تاجر کو سازگار حالات ملنے سے ہی ممکن ہے۔ امید کرتے ہیں حکومت ملک میں پائیدار ترقی و خوشحالی کیلئے جلد صنعتکار تاجر دوست اقدامات کرے گی۔ صنعتوں اور بازاروں مارکیٹوں پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے گی۔ صنعت و تجارت ہی ملکی معاشی ترقی کی بنیاد ہے جس سے ملک میں بے روزگاری اور غربت کی لہر میں کمی آئے گی۔بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی 4 فیصد کمی ہو جانے کا انکشاف، معاشی بہتری کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی، صنعتوں کا پہیہ رک گیا، رواں مالی سال کے دوران بڑی صنعتوں کی پیدوار مسلسل منفی رہی وفاقی حکومت ایک طرف اڑان پروگرام میں لمبی لمبی اڑان کے دعوے کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف حقائق مختلف ہیں وفاقی حکومت کے اپنے جاری کردہ شماریات کے مطابق ملک میں نومبر میں صنعت کی پیداوار منفی 4 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ مہنگائی کم نہیں ہوئی ہے بلکہ چیزوں کی قیمتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے وفاقی ادارہ شماریات نے بڑی صنعتوں کی کارکردگی رپورٹ جاری کی ہے‘پہلے 5 ماہ میں بڑی صنعتوں کی پیدوار منفی ریکارڈ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیدوار کی جولائی تا نومبر گزشتہ سال کے مقابلے گروتھ منفی 1.25 فیصد رہیربڑ، لوہے اور اسٹیل کی پیداوارمیں کمی ہوئی ہے
سوال…… حکومت کہہ رہی ہے کہ اس نے ملک کو نادھندہ ہونے سے بچایا
جواب………… چلیے مان لیتے ہیں یہ بات ٹھیک ہے مگر اب عوام کو بھی تو زندہ رہنے دیں‘اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویز کے مطابق نومبر 2024 تک وفاقی حکومت کا قرضہ 70 ہزار 366ارب روپے رہا جو فروری 2024 میں 64 ہزار 810 ارب روپے تھا‘دستاویز کے مطابق موجودہ حکومت کے پہلے 9 ماہ میں مقامی قرض میں 5ہزار 556 ارب روپیکا اضافہ ہوا‘ یہ سارا بوجھ عوام پر ہی آئے گا آج معاشی ماحول چند ماہ پہلے کے مقابلے میں بہت کم غیر مستحکم اور غیر یقینی ہے کیونکہ سارا نظام ہی دو طرفہ قرضوں کی واپسی اور آئی ایم ایف کی بیساکھیوں پر منحصر ہے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ترقی کچھ برسوں تک غیر یقینی رہے گی، معیشت ابھی بحال نہیں ہوئی ہے حکومت بھی اصلاحات کو نافذ کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے پالیسی سازوں کو توقع ہے کہ بہتری آجائے گی‘ لیکن یہ خدشہ موجود ہے کہ آئی ایم ایف اور اے ڈی بی جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر امریکہ کے نمایاں اثر و رسوخ کے ساتھ، خلیجی ممالک سے اقتصادی امداد اور ترسیلات زر کو پاکستان کی تعمیل پر مجبور کرنے کے لیے ہتھیار بنایا جا سکتا ہے
سوال…… ملکی ترقی میں نجی شعبہ کی اپنی ایک اہمیت ہے‘ اس کی کوئی وجہ؟
جواب……نجی شعبہ ملک کا ایک اہم شعبہ ہے جو بے روزگاری اور غربت کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے یہ سٹارٹ اپس اور چھوٹے کاروباروں کو سپورٹ کرکے جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دیتا ہے، نئی صنعتوں اور مواقع کی تخلیق کو آگے بڑھاتا ہے۔ ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، کانوں اور معدنیات، فوڈ پروسیسنگ، اور آئی ٹی جیسی صنعتوں میں زرمبادلہ کی کمائی کو بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی اہمیت تسلیم کی جانی چاہیے ایسی پالیسیوں کو لایا جائے جو انٹرپرینیورشپ، اختراعات اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں حکومت اور نجی شعبے کے درمیان باہمی تعاون سے پاکستان کی اقتصادی صلاحیت کو بڑھاوا دیا جا سکتا ہے ترقی کو فروغ مل سکتا ہے اور ایک خوشحال مستقبل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے نجی شعبے کی جدت اور مارکیٹ کے بدلتے ہوئے رجحانات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت پاکستان کو عالمی معیشت میں مسابقتی رہنے میں مدد دے سکتی ہے اب دیکھیں کہ دبئی نے مسلسل دوسرے سال گلوبل پاور سٹی انڈیکس میں شاندار مقام حاصل کر لیا ہے۔ جاپان کی موری میموریل فاؤنڈیشن کے مرتب کردہ اس انڈیکس میں دبئی عالمی سطح پر آٹھویں اور مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ دبئی کی یہ پوزیشن پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دبئی کی تیز رفتار ترقی اور کاروبار دوست ماحول پاکستانی اسمال میڈیم انٹرپرائزز کے لیے شاندار مواقع فراہم کرتا ہے۔پاکستانی سرمایہ کار پارٹنرشپس، ٹریڈ ایکسپوز اور فری زونز کے ذریعے دبئی کے گلوبل نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔دبئی نے اسٹارٹ اپس کی ترقی، ملازمت کے مواقع، ہنرمند ملازمین کی شمولیت اور مثالی معیار زندگی فراہم کر کے عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مزید مضبوط کی ہے۔ یہ کامیابیاں دبئی کے کاروباری اور تخلیقی آئیڈیاز کو پروان چڑھانے کے لیے فراہم کردہ سازگار ماحول کا نتیجہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں یہ سب کچھ پاکستان میں ہو اور یہاں بھی عام آدمی خوشحال ہو‘ یہاں کاروبار ہوگا تو عام آدمی خوش حال ہوگا

سوال کیا یہاں بھی اچھے کاروباری دن نہیں آئیں گے
جواب…… نہیں ایسی بات نہیں ہے‘ لیڈر شپ کے ویژن کی بات ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشی چیلنجز کے باوجود پاکستان معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستان نے کڑے چیلنجز کے باوجود درست اقدامات کی بدولت معاشی کامیابیاں حاصل کیں۔ ہمیں کہا جارہا ہے کہ ایک پر امن ملک ہیں‘ اس لیے کہا جاتا ہے خطے میں اسلحے کی دوڑ کے باوجود پاکستان کی محتاط سوچ لائق تحسین ہے۔ دنیا بھر میں فوجی بجٹ میں اضافہ ہوا لیکن پاکستان اسلحہ کی دوڑ کا حصہ دار نہیں بنا۔ پاکستان نے مہنگائی میں کمی، معاشی استحکام، روپے کی قدر میں بہتری اور قرض کی بہتر انتظام کاری کے شعبوں میں نمایاں بہتری دکھائی۔ پاکستان ماحولیاتی طور پر سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے جہاں بار بار آنے والے سیلاب، ہیٹ ویوز اور پانی کی قلت جیسے عوامل خوراک کی سلامتی، بنیادی ڈھانچے کی استحکام اور لوگوں کے روزگار کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی اور سماجی پولرائزیشن ختم ہونی چاہیے بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تنازعات، بگڑتے ہوئے معاشی عدم استحکام اور ماحولیاتی بحران تب ہی ختم ہوں گے دیگر ترقی پذیر معیشتوں کی طرح پاکستان کو بھی پیچیدہ خطرات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹیجک لچک اور پالیسی میں جدت ضروری ہے۔ مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ سے پاکستان کی معیشت کمزور ہو سکتی ہے۔ جدت کو فروغ دینے، گورننس کو مضبوط بنانے اور علاقائی تعاون کو بڑھا کر پاکستان مزید استحکام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خطرات کو مواقع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت مستقبل کا تعین کرے گی۔ اجتماعی عزم کے ساتھ پاکستان خود کو ابھرتے ہوئے عالمی منظر نامے میں اہم کھلاڑی کے طور پر کھڑا کر سکتا ہے
سوال…… حکومت تو کہہ رہی ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام آخری ہوگا۔
جواب………… کہہ تو یہی رہی ہے پاکستان چین کی مالیاتی منڈیوں تک رسائی کے لیے تیار ہے، پاکستان اپنے یوان بانڈ مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔ہانگ کانگ میں کارپوریٹ اسٹاک لسٹنگز کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تیار ہیں، رواں مالی سال کے آخر تک پانڈا بانڈ کا ابتدائی اجرا متوقع ہے۔ پاکستان چین مشترکہ منصوبے کی ہانگ کانگ میں لسٹنگ متوقع ہے، پاک چین تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے سی پیک ایک اہم قدم ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے سی پیک اہم قدم ہے، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے سیکیورٹی اقدامات جاری ہیں، چینی شہریوں سمیت تمام غیرملکیوں کی سیکیورٹی کو اہمیت دیتے ہیں۔اصلاحات کی امید ظاہر کی اور کہا کہ یہ آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا، برآمدی نمو مستحکم، غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، عالمی منڈیوں میں جانے کے لیے کوشاں ہیں‘
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی صنعتی‘ زرعی اور تجارتی ترقی کا دارومدار سیاسی استحکام سے ہے۔ اگر ملک میں قائم جمہوری نظام سبک خرابی کے ساتھ تسلسل سے چل رہا ہو‘ امن و امان کی صورتحال مثالی ہو اور صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے تمام وسائل دستیاب ہوں‘ جن میں تیل‘ بجلی‘ گیس کی سستے داموں وافر دستیابی بھی شامل ہے تو اس سے تاجروں اور صنعت کاروں کی ہی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی اور کسانوں کیلئے اپنی پیداوار بڑھانے کے راستے ہی نہیں کھلتے بلکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی سرمایہ کاری کے آسان اور محفوظ مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی اور انتقام اور بدلے کی سیاست نے ملک کو سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کے راستے پر ڈالے رکھا ہے۔ اسکے علاوہ دہشت گردی کا ناسور بھی ہمارے گلے پڑا ہوا ہے جس کے باعث عدم تحفظ اور غیریقینی کی فضا کے ملک کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے اور ملک کے اندر سرمایہ کاری کی مثالی فضا استوار نہیں ہو سکی آئی ایم ایف کی ناروا شرائط نے پہلے ہی ملک کی معیشت کو جکڑ رکھا تھا جبکہ آئی ایم ایف کے پاس قرض کیلئے کشکول اٹھا کر لے جانے پر خودکشی کو ترجیح دینے کے داعی عمران خان نے پہلے ملک کو دوبارہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی جانب دھکیل کر اور پھر اپنا اقتدار ہاتھوں سے نکلتا دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے معاہدے کی پاسداری نہ کرکے اس عالمی ساہوکار ادارے کو پاکستان کی معیشت پر مزید کاٹھی ڈالنے کا موقع فراہم کر دیا نتیجتاً ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔
آنے والی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی نارضاگی دور کرنے کیلئے اسکی مزید کڑی شرائط قبول کرکے بجلی‘ تیل‘ گیس‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے تسلسل کے ساتھ نرخ بڑھانا شروع کر دیئے اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرکے اور انواع و اقسام کے نئے ٹیکس لگا کر عوام کیلئے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل بنا دیا چنانچہ عوام کے بڑھتے اضطراب کے نتیجہ میں حکومت کو گورننس اور سسٹم کے استحکام کیلئے بھی چیلنج درپیش ہو گئے وزیراعظم شہبازشریف یہی باور کراتے رہے کہ انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے اپنی سیاست کی قربانی دے دی ہے۔ ان کے بعد نگران حکومت نے آنکھ بند کرکے آئی ایم ایف کی ہر شرط پر سر جھکا کر عملدرآمد کی پالیسی اختیار کی جس کا بوجھ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی اتحادیوں کی نئی حکومت کے سر آن پڑا۔ اس حکومت کو اپوزیشن کی انتشار اور افراتفری کی سیاست کے باعث سیاسی عدم استحکام کا الگ سامنا کرنا پڑا۔
اسی فضا میں ملک کی کی اقتصادی سمت درست کرنے کا عزم باندھا جارہا ہے حکومت عوام کو خاطرخواہ ریلیف دیکر انہیں مطمئن کریگی تو انکی توجہ انتشار کی سیاست سے خود بخود ہٹتی چلی جائے گی۔
سوال………… امریکی صدر کی پالیسیاں کہاں تک پاکستان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں
جواب………… ابھی حال ہی میں امریکی پابندیاں ایران کے لیے پاکستانی برآمدات کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئیں، گزشتہ مالی سال ایران کے لیے پاکستانی برآمدات محض 20 ہزار ڈالرز رہنے کا اندیشہ ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کا ایران سے درآمدات پرانحصار مزید بڑھ گیا، گزشتہ مالی سال ایران سے پاکستانی درآمدات ایک ارب ڈالرز سے زائد رہیں۔گزشتہ 5 برسوں میں ایران کے لیے پاکستانی برآمدات مجموعی طور پر صرف ایک لاکھ 30 ہزار ڈالرز رہیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران ایران سے پاکستانی درآمدات بڑھ کر ایک ارب ڈالر سے زائد رہیں اور گزشتہ 5 برس میں پاکستان کی ایران سے درآمدات مجموعی طور پر 3 ارب 65 کروڑ ڈالرز رہیں۔
سوال………… حکومت کچھ اصلاحات بھی لارہی ہے
جواب………… کیا اصلاحات لائے گی؟
سیلز ٹیکس فراڈ کیسز میں 77 ایف آئی آرز کا اندراج کیا گیا ہے،سیلز ٹیکس فراڈ کی کل رقم 411 ارب 77 کروڑ سے زائد ہے، کسٹمز فراڈ کے 299 مقدمات میں کل 30 ارب روپے سے زائد کا فراڈ کیا گیاہے۔ حکومت کو علم ہی نہیں کہ ملک میں کپاس کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہوگئی ہے پیداور خطرناک حد تک گر گئی،10 سال میں پیدوار 14 ملین گانٹھوں سے پیداور 5 ملین گانٹھوں تک رہ گئی ہے جس کی وجہ سے 2 سے 3 ارب ڈالر کی کپاس امپورٹ کرنا پر رہی ہے اور ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ متاثر ہونے کا خطرہ ہے ملکی پیداور پر سیلز ٹیکس ہے اور امپورٹڈ کاٹن پر کوئی ٹیکس نہیں ہے امپورٹڈ کاٹن پر کسٹم ڈیوٹی لگائی جائے،کپاس پر حکومتی سپورٹ پرائس مقرر کی جائے، کاٹن پر ریسرچ کا فقدان ہے اور کاٹن کی بڑے پیمانے پر فصلیں لگانے کی حوصلہ افزائی کی جانی جائے۔ کاٹن پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کما کر دے سکتی ہے، 4 سے 5 ملین ٹن بیلز کی ڈیمانڈ کے مقابلے میں صرف پنجاب میں کمی واقع ہو چکی ہے لیکن رئیل اسٹیٹ بزنس جس نے اپنا گھر اور اپنی چھت دینی ہے یہ شعبہ پس رہا ہے‘ ہر حکومت نے اپنی چھت کا نعرہ تو لگایا لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہے اب اس حکومت سے کچھ امید کی جارہی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اب کچھ بہتری آجائے

اپنا تبصرہ لکھیں