سرمایہ کاروں کو اعتماد ملے گا

جنگ بندی کے بعد پہلے ہفتے کے دوران ‘العربیہ’ نے جو تصاویر دنیا بھر میں اپنے ناظرین و قارئین کے لیے پیش کی ہیں۔ ان سے لگتا ہے کہ سارا منظر ہی بدل گیا ہے۔ غزہ جو اس جنگ سے پہلے دنیا کا گنجان ترین آبادی والا ٹکڑا تھا۔ اب دنیا کے نقشے پر سے زیادہ تباہ حال اور بربادی کا شکار خطہ ہے۔

غزہ میں کھڑی اونچی نیچی تقریبا سب عمارتوں کو اس طرح بمباری سے ملیا میٹ کر دیا گیا ہے جیسے یہ کبھی ایک انسانی بستی نہ ہو سنگ وخشت ملبے کا ڈھیر بسایا گیا ہو۔ عمارتیں ہی نہیں ادارے اور شہری انفراسٹرکچر سب کچھ خاکستر کر دیا گیا ہے۔ جیسے اس کی بنیادوں تک کو ڈھا کر اسے نئی بنیادوں پر کھڑا کرنے کا نیا منصوبہ پیش نظر ہو۔

اس تباہ و برباد کر دی گئی پٹی پر متحیر و پریشان اور خوفزدہ و مایوس چہروں کے ساتھ انسانوں کے انبوہ در انبوہ کبھی ایک اطرف اور کبھی دوسری سمت میں آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے خوفناک بھوت یا عفریت سے یہ کسی طرح بچ کر ادھر آ نکلے ہوں۔ مگر اب بھی خوف کا عفرید مختلف شکلوں میں اس کے دل و دماغ پر قبضہ کیے ہوئے ہو۔

ان کے پاس سامان زیست بھی ان کی پریشان خیالی کی طرح ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جدید دور کی کسی سائنسی بنیادوں پر تباہ کر دی گئی بستی کے ایسے کھنڈرات ہوں جو زمین پر نہیں کسی اور سیارے سے متعلق ہوں اور جہاں کے انسانی چہرے اس سیارے کی کہانی بول بول کر سنا رہے ہوں۔

یہی سارے مناظر اس غزہ کے اس ہفتے میں دور تک پھیلے ہوئے تازہ تصاویر میں دیکھنے کو ملے ہیں۔

مگر ان ہولناک تصویورں کے درمیان بات شاید ٹرمپ کے بیس نکاتی امن منصوبے تک محدود نہیں رہی ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کے بروئے کار آنے کے ساتھ ہی اس پر بیان بازی اور دھمکیوں کے گولے برسنا شروع ہو چکے ہیں۔

مگر اس وقت اصل سوال یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں ٹن ملبے اور کنکریٹ کو کیسے اور کہاں ٹھکانے لگایا جائے گا۔ کیونکہ غزہ تو اپنی گنجان آبادی کی وجہ سے اس جنگ سے پہلے بھی تنگی داماں کا شکار تھا۔ مراد یہ کہ اتنی آبادی کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی اور اب تو صرف تباہی کے لاکھوں کروڑوں ٹن ملبے نے تو مزید مشکل پیدا کردی ہے۔

جی اسی ملبے کا ذکر ہے جس میں انسانی لاشوں اور انسانی لاشوں کی باقیات کی تلاش جاری ہے۔ شہروں اور بستیوں کو ملبہ بنا دینے ترقی یافتہ دنیا کے لیے اب بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے مگر اس ملبے سے نجات محض ایک وبال جان سے کم نہیں ہوتی۔

اس سارے کام کے لیے خطیر رقوم کی ضرورت ہو گی۔ کئی برس کا وقت درکار ہو گا۔ بھاری مشینری اور بڑی تعداد میں افرادی قوت فراہم ہو گی تو پھر کوئی امید بر آنے کا امکان ہو گا۔ اس کے بغیر وعدے کرنا آسان مگر عمل غیر ممکن ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ڈونیشنز دینے والوں کے کھاتے کھول لیے جائیں۔ ڈونرز کانفرنسوں کا انعقاد بھی ممکن بنا لیا جائے۔

کیونکہ تعمیر نو کا نعرہ ہر کسی کو اچھا لگتا ہے کہ اس میں تعمیر کے جذبے کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے کی تخریب مسلسل کو بھی نوٹس کیا جانا چاہیے ۔اس جانب توجہ نہ بھی کی جائے شاید کام چلتا رہے گا کیونکہ اس وقت کہیں سے کوئی چیلنج درپیش نہیں جو اس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے پر مجبور کرنے والا ہو۔

اصل سوال غزہ میں سیاسی بنیادوں کا ٹھوس انداز سے استوار ہونا ہو گا۔ ایسی سیاسی بنیادیں جو گہری کمٹمنٹ کی حامل ہوں۔ اگر اس کا اہتمام نہیں کیا جائے گا تو اربوں ڈالر بھی ریت پر برسائے گئے مینہ کی طرح ہو گی۔ کہ کچھ ہی دیر میں سب کچھ بغیر کسی ‘امپیکٹ’ کے بہہ جائے گا یا ریت میں ہی جذب ہو رہ جائے گا۔

ایک ایسی سیاسی قیادت جو مالیاتی ضرورتوں کی طرف فوکس کرنے سے اور ان کے حل کے لیے سرگرداں ہونے سے بھی پہلے نئی بنیادوں پر سیاسی جڑوں کو مضبوط کرے۔ تاکہ سیاسی بحران کا خاتمہ معاشی بحران کے حل کرنے کی بنیاد بن سکے۔ اسی صورت میں قبضے کا مسئلہ نمٹایا جا سکتا ہے، یہی راستہ تقسیم سے نمٹنے کا ہے اور اس طرح فلسطینی ریاست کے تصور میں رنگ بھرا جا سکتا ہے۔

اسی سیاسی بحران کے خاتمے کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے ساتھ ہی دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور تاجروں نے غزہ کا رخ کر لیا۔ کہ اس معاہدے سے غزہ میں سرمایہ کاری اور تجارت کی منزلیں ان کے لیے آسان ہو جائیں گی اور وہ خوب کاروبار کریں گے۔

وہ اس وقت بھی غزہ میں نئے نئے ہوٹلز اور تجارتی زونز اور تفریحی مقامات بنائے جانے کے امکانات کے خواب اپنے دلوں میں بسا کر آئے تھے۔ کہ اب یہ شہر ایک امیدوں بھری فلسطینی ریاست کا بڑا مرکز ہو گا۔

ماضی میں یہ ہوا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کی تقسیم کا ذریعہ بن گئے۔ لیکن یہ خواب جلد ہی چکنا چور ہو گیا جب قبضے کے خلاف جدوجہد کرنے والے اقتدار کی خاطر آپسی تقسیم کو اہم سمجھنے لگے۔ یوں فلسطینیوں کی اپنی طاقت کمزوری میں تبدیل ہو گئی۔ کہ بد امنی کی راہ ہموار نظر آئی۔

فلسطینی قیادت فلسطینیوں کو متحد اور مضبوط کرنے کے بجائے صرف اپنے آپ کومستحکم اور موثر بنانے کے ایجنڈے پر لگ گئی۔ ہر کوئی فلسطینی علاقے غزہ پر اپنے کنٹرول کا خواہاں دھڑا بن گیا۔ یوں غزہ قبضے اور تقسیم کے درمیان پھنس کر رہ گیا۔

اب دو سال کی بد ترین تباہی کے بعد غزہ الحمد للہ پھر سے تعمیر نو کے لیے تیار ہے۔ غزہ پھر سے بہت سی امیدوں اور خوابوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ بلکہ بن چکا ہے۔ ہر چیز نئے سرے سے بنائی جائے گی۔ ہر طرف تعمیر نو کا غلغلہ بپا
ہے۔ بات چیت کا ماحول بن گیا ہے۔ تعمیر نو کے لیے وسیع امکانات پیدا کر لیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر پھر سے پرانے دائرہ میں ہی چلتے رہنے کا فیصلہ کیا گیا تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ پھر غزہ میں ہر طرف تباہی کی قوتیں سرگرم ہو جائیں گی۔

نیویارک ٹائمز نے اپنے کالم نگار ہنری لوئن سٹین کے ذریعے اس معاملے میں تشویش کا درست اظہار کیا ہے۔ ہنری لکھتے ہیں کہ غزہ کی تعمیر نو کا خرچہ اربوں ڈالر ہو گا۔ لیکن دنیا کا کونسا سرمایہ کار اس طرف آئے گا جب اسے کوئی یہ ضمانت نہیں دے گا کہ جنگ دوبارہ شروع چھڑے گی۔

یہ بڑا جائز سوال ہے۔کہ سیاسی عدم استحکام کے بغیر کونسی سرمایہ کاری کا امکان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ دھمکیوں کے لہجے میں گفتگو اور بیانات کا سلسلہ بھی جنگ بندی ہونے کے ساتھ ہی شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ بو ان اعلانات سے بھی آرہی ہے جو اپنی فتح مندی کے احساس میں موجود ہیں۔

اس صورت حال میں غزہ کی نئی تعمیر محض ایک انجنیئرنگ سے متعلق منصوبہ یا ‘ انیشیٹو’ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل سیاسی اہمیت کی حامل نئی تعمیر ہو گی۔

لیکن یہ کام کہ دنیا کی کمپنیوں کو قائل کرنا کہ اب غزہ میدان جنگ نہیں ہو گا عرب دنیا اور مغربی دنیا کے ذمے ہو گا۔ بلاشبہ امریکہ اور اسرائیل کو اس بارے میں ایک ماحول بنانے میں بنیادی نوعیت کی ماحول گری میں بہت کچھ کرنا ہو گا۔ یہ اطمینان جس قدر دنیا میں عام کیا جائے گا دنیا بھر سے سرمایہ کار اسی شرح سے غزہ کو اپنے لیے کاروباری ترقی کا زینہ بنائیں گے۔

مگر معاملہ بر عکس رہا تو جس قدر یکسوئی اور اعتماد کا دآمن تنگ ہوگا۔ سرمایہ کاروں کا دائرہ بھی دنیا کے مخصوص خطوں تک محدود رہے گا۔ بلکہ کہا جا سکتا ہے اس ساری تعمیر کے ٹھیکوں کا سارا بوجھ زیادہ تر امریکی سرمایہ کاروں کو اپنے سر ہی لینا ہوگا۔

بلاشبہ صدر ٹرمپ کا انتظامی امور کو چلانے والے عبوری فورم کی نگرانی کی اس پس منظر میں اپنی اہمیت ہو گی۔ اس سے کم از کم امریکی سرمایہ کار کمپنیاں اطمینان کر کے سرمایہ لگانے میں کم مشکل محسوس کریں گی۔ البتہ دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کی اس جانب ہمت بڑھانے اور حوصلہ افزائی کرنے کے لیے مزید کچھ کرنا پڑے گا۔

لہذا جب تک کہ اس کوشش کے حوالے سے فلسطینیوں کے درمیان ایک واضح سیاسی حل ممکن نہیں بنایا جاتا اور فلسطینیوں کو ایک ریاست نہیں دی جاتی جیسا کہ دنیا کے ایک سو ساٹھ سے زائد ملک مجوزہ فلسطینی ریاست پر ہم آواز ہو چکے ہیں۔ ایسی ریاست جو حقیقی امن کے واحد راستے کے طور پر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کی سلامتی کی ضمانت دیتی ہے اور تباہی اور تعمیر نو کے اس چکر کے بار بار ہونے کے خطرے یا امکان کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہو۔

اس لیے یہ مکرر بھی کہا جا سکتا غزہ کو آج ڈونرز اور ان کے عطیہ کیے جانے والے فنڈز سے زیادہ ضرورت ایک ایسے ویژن کی ہے جو عمارتوں سے پہلے انسانوں کو اعتماد اور امن کے ساتھ متحد کھڑے ہونے کا موقع دینے کا باعث بن سکتا ہو۔ جو سیاست کو حقیقتاً بحال کر سکتا ہو۔ وہ ویژن ایک ریاست کو تشکیل دے سکتا ہے اور تعمیر نو کے عمل کو استحکام کے ماحول میں شروع ہونے کا موقع دے سکتا ہے۔ اس لیے تعمیر نو سے پہلے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ بلکہ اولین شرط ہے۔ اسی کی بنیاد پر استحکام کی تعمیر ممکن ہو گی۔

سرمایہ کاروں کو اعتماد ملے گا۔ جنگی خدشات کم ہوں گے۔ بصورت دیگر غزہ کی تعمیر نو محض ایک کاغذی منصوبہ ہوگا۔ جسے مکمل کرنے والی سرمایہ کار کمپنیوں کو غزہ کی سرزمین پر ملبے کے علاوہ بارود کی بو اور انسانی لاشوں کے چیتھڑوں کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کی تعمیر محض ایک مخمصہ ہی بنی رہے۔